ریاست پاکستان مدارس دینیہ کا پرانا گھسا پٹا نظام بحال کرنے کے دباؤ کو مسترد کر دے: خرم نواز گنڈاپور
پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان مدارس دینیہ کا پرانا گھسا پٹا نظام بحال کرنے کے دباؤ کو مسترد کر دے، مدارس دینیہ اور اس سے وابستہ لاکھوں طلبہ و طالبات کو قومی دھارے سے باہر نہیں رکھا جا سکتا، انھوں نے کہا کہ پاکستان نے طویل عرصہ دہشت گردی کے زخم سہے ابھی بھی اس سے جان نہیں چھوٹی۔ ماضی میں بیرونی دنیا مدارس دینیہ پر دہشت گردی کی نرسریاں ہونے کا الزام لگاتی رہی ہیں، جس سے خدمت دین کے یہ بے مثال ادارے بدنام کیے جا رہے تھے۔
اسی پارلیمنٹ میں غیر ملکی فنڈنگز لینے کی فہرستیں بھی پیش ہوتی رہی ہیں، پاکستان کے مدارس دینیہ جو دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں رجسٹریشن کے فول پروف نظام سے اب کوئی ان پر الزام لگانے کی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ اب ان مدارس کی دیکھ بھال خود ریاست کر رہی ہے۔ اب ان مدارس کی ترجمان خود ریاست ہے، نئے نظام سے ہزاروں مدارس قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں، یہاں کے طلبہ کو قانونی تعلیمی شناخت ملی ہے، یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ اب زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اپنی ڈگری کے ساتھ صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکتے ہیں، پہلے ایسا نہیں تھا، کوئی ان کی ڈگری کو قبول نہیں کرتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ریاست کی نگرانی اور تعاون کی وجہ سے مدارس دینیہ پر اب کوئی غیر ملکی فورس دہشت گردوں کی نرسریاں ہونے کا الزام نہیں لگا سکتی، تمام بورڈز کو ریاست کے انتظامی، تکنیکی اور مالی تعاون پر خوش ہونا چاہیے، انھوں نے کہا کہ نئے نظام کے تحت آج تک ریاست نے مرضی کا نصاب بنانے یا پڑھانے کی ڈکٹیشن نہیں دی نہ کوئی مداخلت کی، ریاست چاہتی ہے کہ مدارس انگریزی، ریاضی، سائینس کے مضامین پڑھائیں یہ علوم پڑھنا ہماری آئندہ نسلوں کا حق ہے اور ریاست اس ضمن میں پورا تعاون کر رہی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کو بے روزگاری سے بچانے کیلئے فنی تعلیم کی فراہمی میں تعاون بھی کر رہی ہے۔
اب ایک ایک مدرسہ رجسٹرڈ ہو رہا ہے، مالی معاملات مانیٹر ہو رہے ہیں، جو ہونے بھی چاہئیں یہ مانیٹرنگ ملک اور مدارس دونوں کے مفاد میں ہے، ویسے بھی دنیا کی کون سی ریاست ہے جو اپنے ملک میں قائم نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سے لاعلم رہ سکتی ہے؟ریاست کے علم میں ہونا چاہیے کہ کون سا تعلیمی سسٹم کس طرح پرفارم کر رہا ہے۔
کسی کا یہ حق کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ قوم کے بچوں کو جو دل کرے وہ پڑھائے؟ کیا کسی کو یہ حق اسلام کے مرکز سعودی عرب میں حاصل ہے؟ کسی عرب ریاست میں یا غیر عرب ریاست میں تعلیم و تدریس اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کا مادر پدر آزاد صوابدیدی حق حاصل ہے؟
انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ریاست کو اپنی اتھارٹی لوز نہیں کرنی چاہیئے، اگر کسی کو مشکلات کا سامنا ہے تو انھیں حل کرنا چاہیے، آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں مگر کوئی مادر پدر آزاد اختیار مانگتا ہے تو اس کے سامنے ہرگز سرنڈر نہیں کرنا چاہیے۔
تبصرہ