سانحہ ماڈل ٹاؤن، اے ٹی سی نے سرکاری ایف آئی آر کے تین گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے جے آئی ٹی کی بحالی ضروری ہے، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والی جے آئی ٹی 5سال سے معطل ہے:لیگل ترجمان سانحہ ماڈل ٹاؤن
لاہور(20 جولائی 2024) انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت ہوئی۔عدالت میں مقدمہ نمبر 510/14 پولیس ایف آئی آر کے تین گواہان کے بیانات ہوئے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26جولائی تک ملتوی کر دی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے لیگل ترجمان نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ کسی بھی مقدمہ کے انصاف کیلئے شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں متاثرین کو غیر جانبدار تفتیش کا حق بھی نہیں ملا۔ انہوں نے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی کی تفتیش جو کہ آخری مراحل میں تھی، لاہور ہائیکورٹ نے 22 مارچ 2019 کو جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ 5سال کا عرصہ گزر جانے اور سماعت مکمل ہونے کے باوجود آج تک لاہور ہائیکورٹ نے اس پر فیصلہ نہیں دیا ہے۔
نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے جے آئی ٹی کی بحالی ضروری ہے۔جے آئی ٹی نے14جنوری 2019 سے لے کر 20مارچ 2019 تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام زخمیوں، چشم دید گواہان اور شہدا کے لواحقین کے بیانات ریکارڈ کر لئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے جے آئی ٹی کے روبرو پہلی مرتبہ تمام زبانی و دستاویزی ثبوت شہادتوں کی شکل میں پیش کر دئیے گئے تھے۔ جے آئی ٹی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان سے بھی تفتیش مکمل کر لی تھی۔
انہوں نے کہاکہ سربراہ جے آئی ٹی اے ڈی خواجہ نے لاہور ہائیکورٹ میں جو بیان داخل کروایا اس ریکارڈ کے مطابق جے آئی ٹی نے 281 بیانات ریکارڈ کئے اور 80 فیصد سے زیادہ تفتیش مکمل کر لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس جے آئی ٹی نے تین ماہ کے عرصے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے جملہ ملزمان بشمول میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، توقیر شاہ اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سمیت تمام ملزمان سے تفتیش مکمل کر لی تھی۔
انہوں نے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے جے آئی ٹی کی بحالی ضروری ہے۔جے آئی ٹی سارا میٹریل اکٹھا کر کے دفعہ 173ضابطہ فوجداری کی رپورٹ عدالت میں بھجوائے تو تب ہی استغاثہ کی کارروائی میں وہ میٹریل طلب کیا جا سکتا ہے۔ اس بنیاد پر ہی جزا و سزا کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
تبصرہ