انصاف کا نظام ظلم کا نظام بن چکا ہے: خرم نواز گنڈاپور
ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی کیس کے فیصلے سے انصاف ملنا ہے مگر وہ التوا میں ہے
3 سال کے بعد بھی جے آئی ٹی پر چلنے والے سٹے آرڈر پر دکھ ہے
لاہور (5 مئی 2023ء) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ انصاف کا نظام ظلم کا نظام بن چکا ہے۔ دیکھتے ہیں ظلم کے یہ اندھیرے کب تک چھائے رہتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی کیس کے فیصلے سے انصاف ملنا ہے مگر افسوس جے آئی ٹی کا کیس 3 سال سے سٹے آرڈر پر ہے۔ حیرت ہے آخر اس سیدھے، سادے کیس میں ایسا کون سا الجھاؤ اور اٹکن ہے کہ ہمارے قابل، ذہین و فطین اور قانونی فہم رکھنے والے لاہور ہائیکورٹ کے انتہائی معزز اور قابل عزت ججز سے حل نہیں ہورہی؟ 3 سال سے بنچ بن رہے ہیں، بنچ ٹوٹ رہے ہیں مگر انصاف نہیں ہو رہا۔ وہ گزشتہ روز عوامی تحریک لائرز موومنٹ کے عہدیداروں سے گفتگو کررہے تھے۔
خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ جے آئی ٹی کیس کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرائل کورٹ میں ملزمان کو اس کا قانونی فائدہ پہنچ رہا ہے اور اب ایک منصوبہ بندی کے تحت ملزموں نے ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں اور شہداء کے وکلاء کو ان درخواستوں پر بحث کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم مرکزی کیس کو نظر انداز کر کے ملزموں کی ان اپیلوں کو نمٹائے جانے کے عمل کا حصہ بنیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملزمان ٹرائل کورٹ سے بریت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر اگر جے آئی ٹی کو کام کرنے کی اجازت مل بھی گئی تو انصاف نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کے مطابق ایک کیس میں کسی پر دو بار مقدمہ نہیں چل سکتا۔ لگتا ہے یہ محض اتفاق نہیں ہے ایک پلاننگ کے ساتھ شہداء کے ورثاء کے ساتھ قانونی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قتل عام کا ایک ایسا سانحہ جس میں میڈیا کے کیمروں کے ذریعے قاتلوں اور مقتولوں کے چہروں کو صاف دیکھا جا سکتا ہے اس پر بھی 8 سال سے انصاف کے عمل پر جمود اور سکوت طاری ہے بلکہ اب تو ملزموں کے حق میں قانونی راستے ہموار ہوتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم پرامن لوگ ہیں۔ ہم بڑی امید کے ساتھ عدالتوں میں قانون کے مطابق انصاف کے لئے قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں مگر انصاف کا خون ہورہا ہے ہماری چیف جسٹس سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ان ہدایات پر عملدرآمد کروائیں جن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق جے آئی ٹی سمیت زیر التواء اپیلوں کو فوری نمٹائے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس موقع پر نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ اور مستغیث جواد حامد بھی موجود تھے۔
تبصرہ