اسلامی فقہ پر شیخ الاسلام کا خصوصی لیکچر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 23 اپریل کو اسلامی فقہ کے موضوع پر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں خصوصی لیکچر ہوا۔ اس تقریب میں لاہور بار کے وکلاء لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان، مختلف طبقہ ہائے فکر کی معزز شخصیات اور علماء و مشائخ کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین اور کالج آف شریعہ کے اساتذہ کرام کے ساتھ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ بھی اس لیکچر میں شریک تھے۔ شیخ الاسلام نے اپنے لیکچر میں اسلامی فقہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں ایسے سکالرز کی بڑی تعداد موجود ہے جو اسلامی تعلیمات کو صحیح نہ سمجھنے کی صورت میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایسے لوگوں کی اسلامی تعلیمات سے کم فہمی کی وجہ نام نہاد مغربی مفکرین کی اسلام کے حوالے سے لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنا ہے۔ ہمارے مسلم سکالرز مستشرقین کی کتب پڑھنے کے بعد اسلام کے حوالے سے اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسے سکالرز خود کو اسلام کے سکالرز کہلاتے ہیں لیکن ان کی سٹڈی مغربی مفکرین اور مستشرقین کی انگلش کتب ہیں۔ یہ مسلم سکالرز جب اسلام کو اس کے اصل عربی متن کے ذریعے نہیں پڑھیں گے تو پھر ان کو اسلام کا صحیح علم کس طرح ہو گا؟ ایسے سکالرز اسلام کی اصل تعلیمات سے بہت دور ہیں۔
آج لوگ اسلامی فقہ کے حوالے سے ممتاز مغربی مفکر اینڈرسن کی کتاب "اسلامک لاء ان دی ماڈرن ورلڈ" کو پڑھتے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک بلند پایہ مغربی مفکر ہیں لیکن اسلامی فقہ کو سمجھنے کے لیے پہلے قرآن اور احادیث مبارکہ کو عربی متن کےاسلوب میں سمجھنا ہو گا۔ آپ نے کہا کہ مغربی مفکرین کو سٹڈی کرنا غلط بات نہیں لیکن اکثر مغربی مفکرین نے اسلام کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کیا ہے۔ اس منفی پراپیگنڈا کی جھلک ان کی ہر تصنیف میں ملتی ہے۔ یہ صرف اسلامی فقہ کے حوالے سے ایسا نہیں بلکہ اسلام کے حوالے سے دیگر موضوعات پر بھی انہوں نے ایسا ہی معاندانہ علمی رویہ اپنایا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مزید کہا کہ تمام مغربی مفکرین نے اسلام کی تمام فتوحات کو سابقہ تہذیبوں سے جوڑا ہے تاکہ پتہ چلے کہ اسلام کا اپنا کچھ بھی نہیں بلکہ اس کا سب ورثہ مانگے تانگے سے ہے۔ اسلامک لاء کے حوالے سے مغربی مفکرین نے الزام لگایا کہ یہ جیوش لاء، رومن لاء اور عرب لاء (دور جاہلیت) سے لیا گیا ہے۔ اسلامی فلسفہ کے حوالے سے مغربی مفکرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی اسلام کا اپنا نہیں بلکہ یہ یونان کی قدیم تہذیب سے لیا گیا ہے۔ اس طرح اسلامی تصوف کے بارے منسوب کیا گیا کہ تصوف کی اسلام میں کوئی اپنی تاریخ نہیں بلکہ یہ ہندوستان اور کرسچین ورلڈ سے لیا گیا ہے۔ اسلامی تہذیب کے بارے میں مستشرقین کا کہنا کہ اسلام کی تہذیب بھی اپنی نہیں بلکہ یہ یونان، روم اور دیگر مغربی ممالک سے مستعار لی گئی ہے۔ ان کا کہنا کہ یہ کام بنو عباس اور بنو امیہ کے دور میں ہوا اور پھر اس کو قرآن و حدیث سے جوڑ دیا گیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا مغربی مفکرین اسلام کی ابتدائی 7 صدیوں کو "ڈارک ایجز" کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلام کے اس ابتدائی دور یعنی پہلی 6۔ 7 صدیوں میں ہی اسلام کا عظیم علمی ورثہ کا ارتقاء ہوا۔ اس ابتدائی دور میں اسلامی فقہ، اسلامک سائنسز، میڈیکل سائنسز، آسٹرانومی، فزکس، میکانکی، ریاضی، کاسمولوجی، ایمبریالوجی اور دنیا کے تمام علوم و فنون کا احیاء اس دور میں ہوا آج جس کو یورپ ڈارک ایجز قرار دے رہا ہے۔ آج سے 4 صدیاں قبل اسلام اپنے ان علوم و فنون یورپ کو منتقل کر چکا تھا۔ حقیقت یہ ہے اہل مغرب آج جس دور کو اسلام کا ڈارک ایجز سے تعبیر کرتے ہیں یہی دور اسلام کا سنہری دور تھا جس میں اسلام نے اپنے عظیم علمی ورثہ کو اہل مغرب اور ساری دنیا میں منتقل کیا۔
آپ نے اس حوالے سے ایک تاریخی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں صرف حرمین شریفین اور حجاز کی سرزمین ہی عرب تھی۔ شام، عراق، فلسطین، الجزائر اور دیگر عرب ممالک اس وقت عرب نہ تھے۔ فلسطین شام اور قسطنطنیہ اس وقت رومن امپائر کا حصہ تھے۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ کرام ان ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں اپنے علمی وتہذیبی اثرات چھوڑے۔ صحابہ کرام کی آمد کے بعد شام، مصر، دمشق عظیم علمی مراکز بن گئے۔ ایران اس وقت فارس تھا اور یہ شہنشاہ ایران کا ملک تھا۔ افریقہ کے ممالک صحابہ پہنچے بلکہ ہند اور سندھ میں صحابہ کا ایک وفد پہنچا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے خطوط مصر، عمان، مسقط، بہرین، ایران، حبشہ، افریقہ میں بھیجے۔ ان خطوط میں اسلامی تعلیمات اور ہدایات تھیں۔ اس سے اسلام کی فلاسفی ساری دنیا میں پھیل گئی۔ سندھ سے جب صحابہ کا وفد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں واپس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ "تم سندھ سے آئے ہو"
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسلام کا سیاہ دور تھا یا روشن پریڈ؟ مغربی مفکرین کا یہ پراپیگنڈا کیوں ہے؟ اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ آج ہم ان کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ہندوستان آئے اس کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہاں اسلام مزید پھیلا۔ 15 اور 16 ھجری میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کی افواج بلوچستان اور کراچی میں دیبل تک آ گئیں۔ اس طرح اسلام کے عظیم سپہ سالار محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل سب سے پہلے سن 9 تا 10 ھجری میں یہاں صحابہ کرام آئے تھے جو یہاں علم، کلچر اور دیگر علوم ساتھ لے کر آئے۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے سن 92 اور 94 ھجری میں یہاں اسلام کو مستحکم کیا۔ ان کی آمد سب سے پہلے نہ تھی بلکہ محمد بن قاسم سے قبل صحابہ کرام سندھ آئے تھے۔ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے جس کو کسی مفکر نے دور نہیں کیا۔ صحابہ کرام نے سن 10 ھجری تک شام، فلسطین، عراق، اور یمن کو فتح کر لیا تھا۔ سن 12 ھجری تک دمشق، اردن، ہند، عراق، شام اور فلسطین کے مزید علاقے بھی فتح کر لیئے تھے۔ سن 16 ھجری میں القدس اسلام کا دارلخلافہ بن چکا تھا اور 19 ھجری تک القادسیہ، بصرہ، مدائن، عراق اور دیگر عرب ممالک کی تمام فتوحات بھی مکمل ہو چکی تھیں۔
سن 19 تا 24 ھجری تک سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں استنبول، سکندریہ اور مصر کی تمام فتوحات بھی مکمل ہو چکی تھیں۔ سن 24 سے 35 ھجری تک سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آرمینیا، آذربائیجان، ترابلس، کابل، قبرص اور مشرقی یورپ کی تمام سرحدیں بھی فتح ہو چکی تھیں۔ سن 27 ھجری میں مسلمان سپین پہنچ گئے۔ یہ عہد عثمانی تھا اس دور میں مسلمانوں نے سپین میں فوجی چھاؤنی بنا لی اور 28 ھجری میں سپین فتح کر لیا۔ طارق بن زیاد نے سپین کو سب سے پہلے فتح نہیں کیا بلکہ اس سے قبل صحابہ کرام یہاں پہنچ چکے تھے بعد ازاں سن 94 ھجری میں طارق بن زیاد نے سپین آ کر اس کی سلطنت کو مزید مستحکم کیا اور یہاں اپنی حکومت قائم کی۔
سن 40 ھجری میں فرانس اور سِسلی بھی اسلام کا حصہ بن چکا تھے۔ خلافت راشدہ کے بعد 41 ھجری میں بنو امیہ کی حکومت کے پہلے سال میں اسلامی افواج حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں لاہور داخل ہو گئیں اور انہوں نے لاہور فتح کر لیا۔ اس طرح یہ کہنا کہ سلطان محمود غزنوی کے دور میں لاہور فتح ہوا تھا درست نہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی فوج کے نمائندے حضرت قطیبہ بن مسلم کی زیر نگرانی چین کے بادشاہ کے پاس پہنچ گئے۔ یہاں آمد کے بعد مسلمانوں نے ایران، ترکمانستان، وسطیٰ ایشیاء، روس، بلخ، ثمرقند، بخارا اور ماورء النہر اور دیگر علاقے بھی فتح کر لئے۔ اسلام کا پہلا نمائندہ 15 اگست 651 ھجری کو خط لے کر چین گیا۔ اس وقت چین کا دارلحکومت شیکان تھا۔
سندھ اور ہند کی فتوحات سن 15 ھجری سے شروع ہو کر 96 ھجری میں مکمل ہوئیں اس کے بعد اسلامی افواج بلوچستان، سرحد اور سندھ میں دیبل تک پہنچ گئیں۔ اس طرح خلافت راشدہ کے عہد 92 ھجری تک اندلس، سپین اور یورپ کی تمام فتوحات مکمل ہو چکی تھیں۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 27 ھجری سے شروع ہوا تھا۔ ان تاریخی فتوحات کے تمام حوالے علامہ ابن جوزی، علامہ ابن خلدون، علامہ ابن کثیر اور طبری کی کتب میں موجود ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ صحابہ کرام نے اسلام میں ہمہ جہت کردار ادا کیا۔ وہ ہمہ وقت مفسر، محدث، مجاہد، غازی، جرنیل، فلاسفر، قانون دان اور سائنسدان تھے۔ صحابہ کرام جہاں بھی گئے انہوں نے اپنے ساتھ اسلامی تہذیب اور اپنی صلاحیتوں کو ساتھ لے کر گئے۔ اس وجہ سے ساری دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلا۔
آپ نے مزید کہا کہ انٹرنیشنل لاء کے موجد اول اور بانی امام اعظم سیدنا امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت نے "السیر الکبیر" (پبلک انٹرنیشنل لاء) اور السیر الصغیر (پرائیویٹ انٹرنیشنل لاء) لکھی۔ ان کتب میں انہوں نے لاء کے کئی نئے رولز متعارف کروائے۔ جنگی قیدی کے اصول سب سے پہلے اسلام نے دیئے۔ اس طرح قیدیوں کے لیے قانون بھی سب سے پہلے اسلام نے متعارف کروائے۔ علامہ ابن رشد نے سب سے پہلے کنزرویٹیو لاء متعارف کرایا۔ ایڈمنسٹریشن لاء، کیس لاء بھی سب سے پہلے اسلام نے دیا۔ انٹرنیشنل لاء کے موجد امام زین العابدین کے بیٹے امام زید ہیں۔ انہوں نے یہ امام ابوحنیفہ سے بھی پہلے اس کو متعارف کرایا۔ تاجدار کائنات حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور (کانسٹی ٹیوشنل لاء) میثاق مدینہ دنیا کو دیا۔ اس کے 63 آرٹیکل ہیں۔ میثاق مدینہ کے 600 سال بعد مغربی دینا نے کانسٹی ٹیوشنل لاء شروع کیا جب کنگ جارج کے زمانے میں میگنا کارٹا نے کانسٹی ٹیوشنل لاء پر دستخط کیے۔ یورپ کو سارا علم اسلام سے ملا۔ تو کیا یہ اسلام کا ڈارک ایجز ہے؟
اس طرح سائنس میں اسلام نے سب سے پہلے کئی قانون متعارف کرائے۔ ایمبریالوجی کو سب سے پہلے اسلام نے بیان کیا اس کی تصدیق ٹورانٹو یونیورسٹی کے پروفیسر آف اٹانومی ڈاکٹر کیتھ مور نے کی۔ ٹیلی سکوپ کو عظیم سائنسدان سٹریسٹر نے 1940ء میں ایجاد کیا لیکن یہ علم 14 سو سال قبل سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم دے چکے تھے۔
شیخ الاسلام نے مزید بتایا کہ آج مغربی مفکرین اسلام کے اس عظیم علمی احسان کو فراموش کرکے ایک پراپیگنڈا کر رہے ہیں جس کے تحت وہ اسلام کی ابتدائی 7، 8 سو سال کا پیریڈ غائب کر دیتے ہیں۔ اس عرصہ کو مغربی مفکرین نے تاریخی اعتبار سے حذف کر دیا ہے تاکہ اسلام کی نئی نسل کو اس کا علم نہ ہو سکے۔
اہل مغرب کا دوسرا حملہ قرآن و حدیث پر ہے۔ اس کو وہ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسلام کے بنیادی ماخذ نہیں (نعوذ باللہ)۔ وہ قرآن اور حدیث کی جگہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو بنوامیہ کےدور سے جوڑتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس دور میں لوکل رواج اور روایات سے اپنے قانون بنائے۔ مغربی مفکرین کا کہنا ہے قرآن اس لیے نہیں اترا کہ یہ شرعی احکام دے بلکہ اس کا کام تو صرف تصوف دینا ہے۔ یہ کرسچین اور بائبل کا تصور ہے۔ بائبل کے مطابق مذہب صرف انسان کی مذہبی زندگی کو زیر بحث لاتا ہے اس کا انسان کے دیگر امور سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پس منظر میں وہ قرآن کو بھی صرف مذہبی معاملات کی حد تک تصور کرتے ہیں۔ اس تصور کی وجہ سے انہوں نے دین کو مذہب سمجھ لیا۔ انگریزی زبان میں دین کے لئے کوئی لفظ ہی نہیں ہے بلکہ اہل مغرب نے دین کو ریلیجن کا نام دیا ہے۔ اس کا معنی تو صرف مذہب ہے۔ یہ لفظ دین کا ترجمہ نہیں ہے۔ دوسری طرف قرآن نے کسی ایک جگہ بھی اسلام کو مذہب کا نام نہیں دیا بلکہ دین کہا ہے۔ دین کا تصور ایک کلی اور ہمہ جہت ہے۔ اہل مغرب کو دین کا علم ہی نہیں انہوں نے دین کی جگہ مذہب کو ہی سب کچھ جانا جبکہ دین کل اور مذہب اس کا جز ہے۔
دین کے حوالے سے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ عیسائیوں کے پاس حضرت عیسی علیہ السلام ماڈل ہیں۔ عیسائی اپنی قوم کے علاوہ کسی اور کو قوم بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس طرح یہودیوں کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام آئیڈیل ہیں۔ وہ اپنے نبی کے سوا کسی دوسرے نبی کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا کہ جو موسیٰ علیہ السلام نہیں دے سکے وہ کوئی دوسرا نبی کیسے دے سکتا ہے۔
دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیک وقت ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیک وقت قانون، دفاع، ریاست کی تقسیم کار، ڈیلولیشن آف پاور، کریمینل لاء، بین الاقوامی لاء، کسٹمز، کلچر، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، عمر رسیدہ افراد کے حقوق اور جانوروں کے حقوق تک دیئے۔ آپ نے بین الاقوامی کمیونیٹیز کو خطاب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں جنگیں ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ بندی کے معاہدات دیے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا کو معاہدات دیئے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مذاکرات کیے، دنیا کے مختلف بادشاہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بادشاہ اور سلطنت کے حکمران کے طور پر مذاکرات کیے۔ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی اقدار کو زندہ کیا۔ آقا علیہ السلام نے ساری انسانیت کو روشنی دی۔ آقا علیہ السلام کا جتنا بڑا کام تھا اتنا بڑا ہی آپ کو قرآن دیا گیا۔ اس قرآن میں دنیا کا ہر علم موجود ہے۔ اتنی بڑی آپ کی حدیث ہے اور اس کے بعد اتنی بڑی ہی آپ کی امت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ نے آسمان پر اٹھایا تو آپ کے اس وقت صرف 12 صحابی تھے۔ دوسری طرف جب آقا علیہ السلام نے خطبہ حجۃ الوداع دیا تو اس وقت سوا لاکھ صحابہ موجود تھے جنہوں نے ساری دنیا میں اسلام کو پہنچایا۔ جس وقت اسلام نے یہ سارے علوم و فنون دیئے تو اس وقت سارا یورپ اندھیرے میں تھا۔
آج جو لوگ نام نہاد مفکرین کی کتب کا مطالعہ کر کے اسلام پر تبصرہ کرتے ہیں وہ اسلام سے دشمنی کما رہے ہیں۔ اہل مغرب تو اسلام کے خلاف ایک سازش کے تحت کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے مسلم مفکرین بھی ان کے طرز عمل پر چل کر اسلام کو اپنے کم علمی کے تیروں سے چھلنی کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ آج امت کو صرف گمراہ کر کے مغربی ایجنڈا کی تکمیل میں ان کے معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
تبصرہ