شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدارانہ تفتیش نہیں ہونے دی: عوامی تحریک کا ردعمل
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تو اُس پر لاہور ہائیکورٹ نے سٹے آرڈر دے دیا: خرم نواز گنڈاپور
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے استدعا ہے کہ وہ معطل جے آئی ٹی بحال کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ آج بھی ایف آر نمبر 696کے نامزد ملزم ہیں
لاہور (5 نومبر 2022ء) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے وزیراعظم کی پریس کانفرنس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ذکر پر ردعمل میں کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ آج بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آر نمبر 696کے نامزد ملزم ہیں۔ جس دن سانحہ کی غیر جانبدار تفتیش ہو گئی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سیدھا پھانسی گھاٹ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب سانحہ ماڈل ٹاؤن میں درجنوں افراد کو سیدھی گولیاں مار کر زخمی اور 14 کو شہید کیا گیا اُس وقت شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور رانا ثناء اللہ وزیر قانون پنجاب تھے۔ انہوں نے سانحہ کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو ایف آئی آر درج کروانے نہیں دی تھی۔ ورثاء جب تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور ایف آئی آر درج کروانے گئے تو تھانہ فیصل ٹاؤن نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا بعدازاں ایف آئی آر کارکنان کے شدید احتجاج اور عدالت کے حکم پر درج ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سمیت ان کا کوئی وزیر کسی بے گناہ شہید کارکن کے گھر افسوس کے لئے نہیں گیا۔ یہاں تک کہ وہ حاملہ خاتون جو خاموشی کے ساتھ ایک سائیڈ پر کھڑی تھی اُسے بھی مار دیا گیا انہیں اس کے گھر جانے کی بھی توفیق نہیں ہوئی یہ آج کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہمیں افسوس ہے۔؟
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جب تک وزیراعلیٰ پنجاب رہے انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش نہیں ہونے دی اور انہوں نے جو عدالتی کمیشن بنایا تھا اُس کی رپورٹ کو بھی غائب کر دیا تھا جو طویل ترین قانونی چارہ جوئی کے بعد عدالت کے حکم پر ریلیز ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے جو جے آئی ٹی بنائی تھی اُس جے آئی ٹی نے سانحہ کے زخمیوں اور چشم دید گواہان کے بیانات تک قلمبند نہیں کئے اور یکطرفہ چالان انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں بھجوا دیا گیا۔ اگر شہباز شریف کا سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کوئی تعلق نہیں تھا تو انہوں نے قدم قدم پر انصاف کے راستے میں کانٹے کیوں بکھیرے؟۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نظام انصاف کی ابتداء ایف آئی آر اور تفتیش سے ہوتی ہے۔ جب ایف آئی آر اور تفتیش ہی غلط ہو تو انصاف کہاں سے ملے گا؟ یہی کچھ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے ہمارا آج بھی بنیادی موقف غیر جانبدار تفتیش کا ہے اور 8 سال گزر جانے کے بعد بھی غیر جانبدار تفتیش کا حق نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا جو فیصلہ دیا تھا اُس پر لاہور ہائیکورٹ کا تین سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے استدعا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر کام کرنے والی معطل جے آئی ٹی کو بحال کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
تبصرہ