شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈز ہیں: خرم نواز گنڈاپور
غیر جانبدار جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک رانا ثناء اللہ اور حواری بے گناہی کا دعویٰ نہیں کر سکتے
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے آلہ کار کا کردار ادا کیا، قتل عام کا منصوبہ ایوان وزیراعظم میں بنا
غیر جانبدار جے آئی ٹی کی رپورٹ سے ماسٹر مائنڈز کے چہروں سے نقاب اتریں گے
پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل کا ملزم وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بیان پر سخت ردعمل
لاہور (29 جولائی 2022ء) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کا منصوبہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی سرپرستی میں ایوان وزیراعظم میں بنا، اصل ماسٹر مائنڈز نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ہیں جبکہ پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن نے آلہ کار کا کردار ادا کیا۔ ان سارے حقائق پر مشتمل تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور میں ایف آئی آر نمبر 696 آج بھی درج ہے اور زندہ ہے۔ ابھی اس ایف آئی آر پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حمزہ شہباز کے غیر قانونی اقتدار کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو بری کروانے کی کوشش کی گئی تھی جو ہمارے فعال قانونی کردار کے باعث ناکام ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کر رکھے ہیں مگر انصاف کے معاملے میں غیر ضروری تاخیر کا شکار ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کی بطور ملزم طلبی کی پٹیشن اعلیٰ عدلیہ میں زیر التواء ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور رانا ثناء اللہ نے بطور وزیر قانون پنجاب سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی تفتیش مرضی کے افسروں سے کروائی اور اہم حقائق کو مسخ کیا گیا۔ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے انصاف کے لئے نہیں کلین چٹ حاصل کرنے کے لئے ذاتی نوکروں سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پہلی تفتیش کروائی۔ نوکروں کی اس تفتیش میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے زخمیوں اور چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے انکار کیا گیا اور یکطرفہ چالان اے ٹی سی میں پیش کیا گیا۔
خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ہمارا 8 سال سے مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر ایک نئی جے آئی ٹی بنی جسے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ 3 سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے۔ غیر جانبدار جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک رانا ثناء اللہ اور حواری بے گناہی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ قتل عام کا سارا ملبہ پولیس افسروں اور اہلکاروں پر ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ پولیس نے صرف آلہ کار کا کردار ادا کیا۔ سانحہ کے اصل ماسٹر مائنڈ شریف برادران اور رانا ثناء اللہ ہیں۔ 17 جون 2014ء سے صرف ایک دن قبل مشتاق سکھیرا کو کوئٹہ سے پنجاب آئی جی لگایا گیا۔ اس ہنگامی تقرری کا شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ آج تک کوئی جواز پیش نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے ڈی سی او لاہور کو بھی راتوں رات بدلہ گیا اور درجنوں تھانوں کی پولیس ماڈل ٹاؤن کے رہائشی علاقے میں بھجوائی گئی، یہ بیریئر ہٹانے کا نہیں بلکہ تحریک منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے قائدین اور کارکنان کو بے رحمی سے قتل کرنے اور ڈرانے کا پلان تھا کیونکہ نواز حکومت چاہتی تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان نہ آسکیں کیونکہ وہ خوفزدہ تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان آ کر ان کے فاشسٹ اقتدار کے خلاف رائے عامہ ہموار کی تو وہ حکومت نہیں کر سکیں گے۔
خرم نواز گنڈاپور نے مزید کہا کہ ہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کے حوالے سے سٹے آرڈر کا جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ سانحہ کے ماسٹر مائندز کے چہروں پر پڑے ہوئے نقاب اتر سکیں۔
تبصرہ