وطن کا دفاع ہر شہری پر واجب ہے
رابعہ فاطمہ
تاریخ نہ صرف ہمیں گذشتہ واقعات سے روشناس کراتی ہے بلکہ ہمیں آئندہ معاملات میں رہنمائی بھی کرتی ہے جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں پھر وہ اپنے مستقبل کو بھی تجزیوں کی نظر کردیتی ہیں کیونکہ وہ تاریخ سے اچھے یا برے سبق حاصل نہیں کرتی اس لیے تاریخ کو یاد رکھنا اور آئندہ نسلوں تک اسلاف کے کارناموں کو پہنچانا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ تاریخ کو یاد رکھنے کا آسان طریقہ ہے کہ اُن کارناموں کے یادگار ایام کو منایا جاتا ہے۔
اسلام نے جہاں جہاد کی تیاری کا حکم دیا ہے وہاں اپنے اور اسلام کے دشمنوں کی ناپاک سازشوں سے بچنے کے لیے دفاعی اصلاحات اپنانے اور تیاری رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے۔ (سورہ النساء آیت نمبر: 71) اسلام نے جنگ میں پہل کرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو لیکن اگر کہیں ظلم ہورہا ہو تو جہاد کا حکم دیا ہے۔ (سورہ النساء: 75)
ہمیں اپنے ملک و ملت کی حفاظت کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہنا چاہیے جو بندہ اپنے ملک و قوم کے لیے اپنی جان دیتا ہے وہ شہید ہوتا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے:
عن سعید بن زید عن النبی ﷺ قال: من قتل دون ماله فهو شهید ومن قتل دون اهله او دون دمه او دون دینه فهو شهید۔
’’سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت یا خون یا دین کے دفاع میں قتل ہوجائے وہ بھی شہید ہے۔‘‘
آقاe مدینہ شریف کے مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان جتنے بھی غزوات و معرکے ہوئے ہیں وہ مدینہ شریف کی حدود کے آس پاس ہوئے ہیں۔ ہمیشہ کفار مکہ نے ہی مدینہ شریف پر چڑھائی کی کوششیں کی اور منہ کی کھائی مسلمانوں نے ہمیشہ دفاعی پوزیشن سنبھالی اور فتح یاب ہوئے۔
پاکستان اللہ کریم کی لازوال رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت ہے۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے جب سے یہ معرض وجود میں آیا ہے۔ دشمنان اسلام و پاکستان کو اس کی یہ آزادی اور خود مختاری ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ ہمیشہ اس کے خلاف سازشیں اور جھوٹے پراپیگنڈے کرتے رہتے ہیں اور اس کی زمینی اور نظریاتی حدوں پر حملے کرتے رہتے ہیں اور اس کے بہادر سپوتوں نے ہر لمحہ اس کی حفاظت کی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اپنا فرض سمجھتے ہوئے خوشی خوشی اپنے وطن عزیز پر قربان ہوجاتے ہیں اور اس کی عزت پر حرف نہیں آنے دیتے۔
6 ستمبر 1965ء کو بھی دشمن نے ایک ایسا حملہ ملک پاکستان کیا گیا تھا تاکہ اسے ختم کرسکیں لیکن افواج پاکستان نے ان کو ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ آج تک وہ اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں۔
ہندوستان فوج نہ صرف افرادی قوت میں ہم سے 5 گنا زیادہ تھی بلکہ ان کے پاس جدید اسلحہ و بارود بھی زیادہ تھا اور دوسری طرف افواج پاکستان کے پاس یہ دنیاوی چیزوں اور سامان حرب ہونے کے باوجود ان کے پاس قوت ایمانی، جذبہ حیدریؓ اور جرات شبیریؓ تھی جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں فتح یاب کیا وادی کشمیر جیسے دنیا جنت نظیر وادی کہتی ہے۔ اس کا آدھے سے زیادہ علاقہ انڈیا کے قبضے میں ہے اور تھوڑا سا آزاد علاقہ پاکستان کے پاس ہے۔ انڈیا اس علاقے میں بھی نہ صرف ناجائز قبضہ کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ پاکستان کے دل لاہور پر بھی بری نظر رکھ رہا تھا اور انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ صبح ناشتہ جم خانہ کلب لاہور میں کریں گے۔ لیکن وہ بھول گئے تھے کہ جنگ صرف تخیلاتی طور پر جیتنے کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے دلیری اور بہادری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
افواج پاکستان نے اپنے سے 5 گنا بڑی فوج کو ذلت آمیز شکست پر مجبور کرکے پوری دنیا میں ہندوستان کے تکبر اور گھمنڈ کو خاک میں ملادیا اور اپنے ملک و قوم اور دشمن کے درمیان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
کوئی قوم بھی اپنے دفاع سے غافل رہ کر ترقی نہیں کرسکتی جس کا دفاعی نظام جتنا طاقتور ہوگا وہ قوم اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ افواج پاکستان کے بہادر اور قوت ایمانی سے سرشار جوان خواہ وہ بری ہوں بحری ہوں یا فضائی انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی صورت اپنے ملک و ملت پر بری نظر رکھنے والوں کو ان کے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے اپنے دفاع کو مضبوط تر کردیا ہے اور مزید بھی کررہے ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں ہمارے بہادر شاہینوں نے وہ عظیم مثالیں قائم کیں جو دنیا اور نئی آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ مل کر بھارت کی اتنی بڑی فوج کو ناکوں چنے چبوائے اور اسے ایک قدم بھی پاک سرزمین پر نہ رکھنے دیا مسلسل چھ دن اور راتیں جاگ کر بھارتی فوج کو بھاگ جانے پر مجبور کردیا۔ مورچے سے نکل کر اپنے جوانوں کو ہدایات دیتے رہے۔ دشمن یہ سمجھنے پر مجبور تھا کہ یہاں پر بہت بڑی تعداد میں فوجی موجود ہیں جبکہ وہاں صرف چند جوان تھے اسی دوران ایک گولا ان کے سینے پر لگا اور وہ شہید ہوگئے لیکن وہ اپنی ڈیوٹی پوری کرگئے ان کو نشان حیدر سے نوازا گیا کیونکہ انہوں نے حیدری جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی۔
اسی طرح ہمارے فضائی شاہینوں نے ایسی جوانمردی کا مظاہرہ پیش کیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ محمد محمود عالم نے ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے 5 جہاز مار گرا کر عالمی ریکارڈ بنایا جسے کوئی بھی اتنے سال گزرنے کے باوجود توڑ نہ سکا انہوں نے مجموعی طور پر 9 طیارے گرائے انہیں دوبار ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ پاکستان کے جانبازوں نے صرف دو دن میں بھارت کے 35 طیارے مار گرائے اس کا اعتراف انڈیا کے ریٹائرڈ ایئر مارشل بھارت کمار نے اپنی کتاب The Duels of the Himalayan Eagle میں کیا ہے کہ بھارت کو 1965ء کی جنگ میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ دو دن میں پاکستان نے بھارت کے 35 طیارے تباہ کردیئے۔
جس طرح 6 ستمبر کو ہر سال یوم دفاع منایا جاتا ہے اسی طرح 7 ستمبر کو ہمارے آزاد وطن کی آزاد فضائوں میں اڑنے والے شاہینوں کے لیے بھی دن منایا جاتا ہے۔ ان کی لازوال قربانیوں کی یادگار کے طور پر تاکہ قوم انہیں خراج تحسین پیش کرسکے۔ اس دن کو یوم فضائیہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اور ان کے کارنامے واقع میں داد کے قابل ہیں۔ ہماری بری فوج کے جانثاروں نے اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے گھس کر انہیں تباہ و برباد کردیا اور خود جام شہادت نوش فرمالیا۔
پاکستان کی بری فوج نے نہ صرف لاہور، سیالکوٹ، کشمیر اور راجستھان کے علاقوں کا بلکہ سارے ملک کے چپے چپے کا خیال رکھا۔ اسی طرح فضائیہ نے ملک کی فضائی حدود کے ساتھ ساتھ بری اور بحری فوج کا بھرپور ساتھ دیا اور دشمن کے گھر میں گھس کے اس کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ 1964ء کو پاک بحریہ کے لیے ایک عظیم دن تھا کہ اس دن پاک بحریہ کی پہلی آبدوز بحری بیڑے کا حصہ بنی اور اس کا نام ’’غازی‘‘ رکھا گیا۔ اس طرح پاک بحریہ کا دفاعی نظام اور مضبوط ہوگیا۔ بھارت کا کوئی بھی ساحل اس سے محفوظ نہیں تھا کیونکہ یہ طویل سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
بھارتی سورما پاک بحریہ سے اور خصوصاً ’’غازی‘‘ آبدوز سے زیادہ خوفزدہ تھے انہوں نے اپنا طیارہ بردار بیڑہ ’’وکرانت‘‘ دور ایک جزیرے میں چھپادیا تاکہ وہ محفوظ رہ سکے اس کے علاوہ کوئی بھی بحری جہاز غازی کے خوف سے سمندر میں نکلا ہی نہیں کہ نہ جانے کب غازی انہیں تباہ کردے۔
انڈین ایئر فورس کو ریڈار اسٹیشن دوارکا کی بہت سپورٹ تھی اور وہ کراچی سے 200 کلومیٹر اندر جاکر انڈیا کی سمندری حدود میں واقع تھی اسے تباہ کرنا بہت ضروری تھا یہ کام پاک بحریہ کو سونپا گیا یہ ایک بہت خطرناک آپریشن تھا۔ پاک بحریہ کا ایک بیڑہ کمانڈر فلیٹ کموڈور ایس ایم انور کی قیادت میں رات کو روانہ ہوا اور انڈیا کے ساحل دوارکا کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ ان کے سارے جہاز پاک فوج کے توپوں کے نشانوں پر تھے رات کو 12 بج کر 26 منٹ پر اس بیڑے کو فائر حکم ملا جس سے انڈیا کا مکمل ہوائی اڈا تباہ ہوگیا اور پاک بحریہ کا یہ مشن کامیاب رہا اور بھارتی فوج نے بزدلانہ رویہ اپنایا اور اپنا دفاع تک نہ کرنے نکلی۔ دیکھا جائے تو مجموعی طور پر ہماری افواج نے اپنے وطن عزیز کا بھرپور دفاع کیا اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔ ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے اپنے شہداء پر فخر ہے۔
یوم دفاع منانے کا آج کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنا اپنے دفاع کو مضبوط اور جدید سے جدید تر کرنا کیونکہ دشمن آج بھی ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسلوں کی بے انتہاء تربیت کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی ہمارے درمیان نفرت اور تفرقہ نہ پھیلا سکے اور نہ ہی ہمیں اپنے وطن سے محبت نہ کرنے پر مجبور کرے کیونکہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔
تبصرہ