جمہوریت اور عوامی بالا دستی
سمیّہ اسلام
جمہوریت اور عوامی بالادستی لازم و ملزوم ہیں۔انسانی عقل و خرد سے آج تک جو جو نظام ہائے حکومت مرتب ہوتے رہے ہیں ان میں عالمی سطح پر تا حال جمہوریت کو ہی بہتر تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے عملی مظاہر بآسانی مہذب دنیا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔جمہوریت کوئی دورِ جدید کی اصطلاح یا متعارف کردہ نظام نہیں بلکہ یہ صدیوں پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں مروج رہا ہے۔جس کے نشان ہند میں 600 سال قبل از مسیح اور 400 قبل مسیح میں موجود تھے۔ پھر یونان میں بھی 500 قبل مسیح میں بھی کونسل اور اسمبلی کا تصور ملتا ہے۔ اس کی چند مثالوں میں ہندوستان میں پنچایت، جرمن قبائلی نظام، تھوتھا سسٹم آئیرلینڈ اور دیگر شامل کیے جا سکتے ہیں۔ گویا نظریات یک لخت زمین پھاڑ کر نمودار نہیں ہوتے بلکہ یہ صدیوں کا سفر طے کرکے نمو پاتے ہیں۔
اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس تصور کا دوبارہ احیاء ہوا۔ اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج موجود ہے۔ اسے لبرل ڈیموکریسی اور اردو میں "آزاد خیال جمہوریت" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جن مفکرین نے جمہوریت کی صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ والٹیئر، مونٹیسکو اور روسو ہیں۔ یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں، انہی کے افکار ونظریات کے ذریعہ جمہوریت وجود پزیر ہوئی۔مشہور انقلاب فرانس کے بعد، جو یورپ میں حریت و جمہوریت کے مذبح کی سب سے بڑی اور آخری قربانی تھی، موجودہ جمہوریت کا وجود عمل میں آیا۔ تاریخ انقلاب تمدن کے مصنف اور مشہور موئرخ حال کا یہی خیال ہے۔
جمہوریت کی تعریف:
جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ "democracy" کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہوکر آیا ہے۔ یونانی زبان میں demo عوام کو اور cracy حاکمیت کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔ جمہوریت کی اصطلاحی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے: "حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے"۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں"۔
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: "goverment of the people,by the people,for the people" یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔
جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔
اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے، اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے۔
جمہوریت کی مختلف تعریفوں میں سے جو اس کا زیادہ احاطہ کرتی نظر آتی ہے وہ یونان کے مفکر ہیروڈوٹس کی بیان کردہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں اور اسی بات کو لنکن بالفاظِ دیگر بیان کرتا ہے کہ عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے اور عوام پر گویا اس نظامِ حکومت کا مرکز و محور ہی عوام ہیں۔ گویا کسی فرد یا ادارے کو عقلِ کُل یا مختارِ کُل نہیں سمجھا یا مانا جا سکتا۔
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ آمریت کے برخلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔ اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی اور موجودہ دور میں یہ طرز جمہوریت سوئٹیزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔
جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں جو ووٹرز کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کار فرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب درست اور شفاف ہو۔
جمہوری حکومت کا طریقۂ کار:
قانون سازی کا اختیار رکھنے والے ادارے کو مقننہ کہا جاتا ہے اور جمہوریت میں یہ اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ یا عاملہ کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کا نام "عدلیہ" ہے جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔ اسی وقت سے جمہوریت کا یہ نظام جاری ہے۔ 9 ستمبر 2013ء کے Borgen Magazine کے مطابق دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد 123 ہے۔ چونکہ مطلق العنان حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے، اس لیے مونٹیسکو نے اس کو لوگوں کے نقصان اور ظلم کا باعث قرار دیا اور یہ کہا کہ ریاست کے اختیارات تین قسم کے ہوتے ہیں لہذا تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہئیں۔
جہاں نظام جمہوریت کو دنیا کے متعدد ممالک نے اپنا رکھا ہے اور اسے بہت پسند کیا جاتا ہے،وہیں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس نظام میں موجود مختلف نقائص کی نشاندہی کی ہے۔
خواہش امارت اوراسلام:
موجودہ جمہوریت میں سب سے عظیم نقص یہ ہے کہ اقتدار کے لیے چند افراد اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں جنگ و جدال، قتل و قتال یہ سب ہوتا ہے اس لیے اسلام نے امارت کی خواہش پر پابندی عائد کردی اگر اسلام کے اس نہج کو اپنایا جائے تواس سے لازماً دو فائدے ہوسکتے ہیں: اوّل یہ کہ انتخابی کش مکش اور باہمی تصادم سے نجات ملے گی۔ دوم یہ کہ جب کوئی امارت کا مدعی نہ ہوگا توامت پر خوف یا لالچ کی فکر غالب نہ آئے گی اور صحیح خلیفہ متعین کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔
حرف آخر:
درحقیقت جمہوریت سے مراد نظم معاشرت اور عوامی حکومت کی آڑ میں انسان کے فکر و نظر، تہذیب و تمدن کو عقیدے اور دین سے منقطع کرکے اسے ریگولر کی بجائے ملحد بنادینا ہے؛ تاکہ ایک ایسی عام تنظیم قائم ہوجائے جس کے پردے میں شاطرانِ زمانہ ساری دنیا پر اپنی آمریت قائم کرسکیں، جس نظام کا نصب العین اور نظریہ ایسا ہوگا، یقینا نظام الٰہی کا اس سے تصادم اور ٹکراؤ معرکہ کی شکل میں ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ الفاظ سر ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء
تبصرہ