آزادی بہت بڑی نعمت ہے
اللہ کا کروڑ ہا شکر ہے کہ آج ارض پاکستان میں آباد کروڑوں نفوس نعلین پاک کے تصدق سے آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کے پس منظر کے حقائق و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو خونچکاں روایات اور حقائق سننے، پڑھنے کو ملتے ہیں۔ برصغیر میں ہندو اور انگریز نے ملکر مسلمانوں سے انسان ہونے کا حق بھی چھین لیا تھا۔ مذہبی، شخصی، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی آزادیوں کو سلب کر لیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری بھی نہیں سمجھا جارہا تھا۔ مسلمانوں کے مذہبی، سماجی حقوق کا قتل عام اور اسلامی شعائر کی تضحیک کو معمول بنا لیا گیا تھا۔ اس ساری توہین اور تضحیک کے خاتمے کے لئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسلامیان برصغیر کی قیادت سنبھالی اور آزاد وطن کے لئے برصغیر کے طول و عرض میں ایک ایسی مہم چلائی جس نے خوابیدہ امت کو حق آزادی کے حصول کے لئے بیدار، پرعزم اور یکجا کر دیا اور قوموں کے عرصہ جدوجہد آزادی کے مختصر ترین عرصہ میں الگ وطن کے حصول کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا۔ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الہ الا اللہ‘‘کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تحریک آزادی کے قافلہ حق میں بچے، بوڑھے، نوجوان، خواتین سبھی شامل تھے۔ بالخصوص مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے بانی پاکستان کی حفاظت اور معاونت کے ساتھ ساتھ خواتین کو آزادی کی جدوجہد کیلئے مستعد اور متحرک کرنے کے حوالے سے جو کردار ادا کیا وہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا ایک ایسا سنہرا باب ہے کہ سیاسی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ مادرملت فاطمہ جناحؒ نے بطور ڈاکٹر اپنا شاندار کیریئر ملتِ اسلامیہ کے آزاد، محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لئے قربان کر دیا۔ تحریک پاکستان میں اور بہت ساری خواتین کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے بانی پاکستان اور مادر ملت کے شانہ بشانہ حصول آزادی کی شاندار اور جاندار مہم چلائی ان خواتین میں مولانا شوکت علی جوہر، مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں، بیگم محمد علی جوہر، بیگم کمال الدین، بیگم سلمیٰ حسین، فاطمہ بیگم، بیگم جہاں آرا شاہنواز، بیگم نصرت عبداللہ ہارون، بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسی جرأت مند خواتین نے رول ماڈل کا کردار ادا کیا۔ بانی پاکستان نے ہر موقع پر خواتین کی سیاسی خدمات کی پذیرائی کی اور تعمیر پاکستان کیلئے بھی خواتین کے فعال کردار کو ناگزیر قرار دیا۔ بانی پاکستان نے پاکستان کی غرض و غایت کے حوالے سے 24 اکتوبر 1947 ء کو عید الاضحی کے موقع پر ایک ایمان افروز پیغام دیا تھا جس کا حرف حرف عمل کا متقاضی ہے بانی پاکستان نے فرمایا تھا چاروں طرف سے تاریک بادلوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے مگر ہم ان کے خوف سے رک نہیں سکتے۔ کیونکہ مجھے یقین ہے اگر ہم نے قربانی کا وہی جذبہ پیش کیا جیسا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا تو مصیبتوں کے بادل چھٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ کی طرح ہم پر بھی اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔ آئیے آج عید الاضحی کے دن جو اسلام کے اس جذبہ ایثار اور قربانی کا مظہر ہے، جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے، یہ عہد کریں کہ ہم اپنے تصورات کے مطابق اس نئی مملکت کی تعمیر میں بڑی سے بڑی قربانی دینے اور آزمائشوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں رہیں گے ۔ ایک اور موقع پر بانی پاکستان نے فرمایا تھا: اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کا امتحان لیتا ہے اور انہیں آزمائش میں ڈالتا ہے جن سے وہ محبت فرماتا ہے۔ اللہ جل شانہ، نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اس شے کی قربانی دیں جو انہیں سب سے زیادہ عزیز ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم پر لبیک کہااور اپنے لخت جگر کو قربانی کے لیے پیش کیا۔ آج پھر خدائے عزوجل کو پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کا امتحان اور ان کی آزمائش مقصود ہے۔ حق تعالیٰ نے ہم سے عظیم قربانیوں کا تقاضا کیا ہے۔ ہمیں جس قدر عظیم قربانیاں دینی ہوں گی ہم اس قدر باصفا اور پاکیزہ تر ہو جائیں گے جیسے سونا جب بھٹی سے نکلتا ہے تو کندن بن جاتا ہے۔ پس آپ سب کے لیے میرا پیغام، امید، حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے۔ آئیے ہم باقاعدہ اور منظم طریقے سے اپنے تمام وسائل مجتمع کر لیں اور درپیش سنگین مسائل کا ایسے عزم بالجزم اور نظم و ضبط سے مقابلہ کریں جو ایک عظیم قوم کا سرمایہ ہوتا ہے۔ دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کئے گئے پاکستان سے محبت کرنے اور اسے سنوارنے کی توفیق دے اور شہدائے پاکستان کے درجات بلند فرمائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکست 2021ء
تبصرہ