مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ
روبینہ عباس
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
کسی بھی معاشرے کی بقاء اور استحکام قانون کی حکمرانی اور بالادستی پر منحصر ہے۔ قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا، قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے۔ انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقاء قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقاء کی اکائی ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا۔ نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی ضامن ہے۔
حضرت امام علیؓ کا قول ہے:
’’کوئی معاشرہ ظلم کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کی بنیاد پر نہیں۔‘‘
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ تہذیبِ انسانی ازل سے عدل و انصاف قانون کی بالادستی کے قیام کے لیے سرگرداں رہی ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ مدینہ منورہ میں جس اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی، سماجی انصاف اس کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ ﷺ کا یہ شرفِ عظیم ہے کہ آپ نے نہ صرف قانونی عدل قائم کیا بلکہ سماجی انصاف کا بھی بول بالا فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں بھی آپ ﷺ کا نام نامی نہایت احترام سے لیا جاتا ہے جس کا واضح ثبوت قانون کی عظیم درسگاہ لنکن ان میں آپ ﷺ کا اسم گرامی بطور قانون بخشنے والا ثبت ہے۔ اس تحریر کو دیکھ کر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس موثر درس گاہ میں داخلہ لیا تھا۔
قرآن مجید میں بھی قانون کی فراہمی اور انصاف کی اہمیت کے بارے میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن مجید عدل وانصاف کا ہی حکم دیتا ہے۔
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
(النحل، 16: 90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
’’اور جب تم بات کہو تو عدل سے کہو خواہ تمہارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی.
(المائدة، 5: 8)
’’کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔‘‘
احادیث نبوی میں عدل وانصاف کی فراہمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔
جس معاشرے میں باہمی خیر کے قیام اور شر کے مٹانے کی سعی نہیں کی جاتی وہ بالآخر مٹ جاتا ہے۔
فاطمہ نامی خاتون جو کہ ایک بڑے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی چوری کرنے کے باعث ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا اور ان کے حق میں کسی کی سفارش قبول نہ کی گئی۔یہی درس اسلام کا ہے کہ قانون اور انصاف سب کے لیے برابر ہے۔ اس میں کسی غریب یا امیر کی تفریق پر فیصلے نہیں کیے جانے چاہیے۔ اسی طرح خلفاء راشدین نے اپنے اپنے ادوار میں انصاف کا بول بالا کیا اور ظلم کی آواز کو پست کیا۔
کسی بھی ریاست میں حکومتی معاملات کی انجام دہی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنے والے تین بڑے ادارے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک قانون سازی کرنے والا مقننہ ہے، دوسرا مجلس قانون ساز (مقننہ) کے مرتب کردہ قوانین کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور انتظام مملکت چلانے والا ادارہ انتظامیہ ہے۔ حکومت کا تیسرا بڑا ادارہ عدلیہ ہے جس کا مقصد ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا دارومدار اور انحصار نظام عدل پر ہوتا ہے۔ ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان ایک ریاست اور فرد کے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھنا اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا عدلیہ کی حقیقی ذمہ داری ہے۔ انصاف قائم کرنے والی اقوام ہمیشہ سرخرو و بلند رہتی ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے انصاف کے حوالے سے ایک تاریخی جلسہ کیا تھا جس کا حوالہ ناگزیر ہے۔
اگر میرے ملک میں انصاف ہورہا ہے تو ہم کبھی نہیں ہارسکتے۔
دنیا بھر میں عدالتی کاروائی چلانے کے لیے دو طرح کے نظام موجود ہیں جنہیں adress arial and inquisitorial system کہا جاتا ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام میں یہ دونوں سسٹم ہی موجود ہیں۔ پاکستانی عدالتی نظام کا ڈھانچہ دو اقسام پر مشتمل ہے:
1۔ Superior Jodiciary
2۔ Subordinate Jodiciary
superior jodiciaryمیں ایک سپریم کورٹ، ایک فیڈرل شریعت کورٹ اور پانچ ہائی کورٹس شامل ہیں جبکہ Subordinate jodiciary میں سول کورٹس، سیشن کورٹ اور دیگر سپیشل کورٹس شامل ہیں۔ حکومت کا کردار عدلیہ کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام دیگر ملکوں کی طرح بہت موثر ثابت نہیں ہوا۔
World justice project organization
ایک بین الاقوامی Organization ہے جس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 128 ممالک میں سے 120 نمبر پر ہے انصاف کی فراہمی میں اور اگر ایشیاء کے خطے کی بات کی جائے تو پاکستان بھوٹان، نیپال، بھارت، چین اور ایران سے بہت پیچھے ہے۔ South Asia میں صرف افغانستان ہم سے کم درجے میں ہے۔ چیچنیا خود حالت جنگ میں ہے۔ یہ صورت حال پاکستانی عدالتی نظام کی ہے۔
اس بات کا ثبوت ایسے Cases فراہم کرتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے 2015ء میں 14 سال بعد باپ اور بیٹے کی رہائی کا حکم صادر فرمایا جب جیلر ریکارڈ لے کر پہنچا تو پتہ چلا کہ ان کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ میں 17 لاکھ کے قریب کیس Black lock میں ہیں۔ اس حالت زار کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن کو اصلاحات کے ذریعے سے ہی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور عدلیہ مل کر ہی نظام عدل کو موثر اور مثالی بناسکتی ہیں جس سے فوری اور سستا انصاف میسر ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار سیاسی ہے جس میں Review کی ضرورت ہے۔ ججز کی Sporadic ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے تاکہ بہترین صلاحیتوں کو اجاگر کرکے موثر فیصلے کیے جاسکیں۔
جو قومیں وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتیں وہ تاریخ کے اوراق سے مٹادی جاتی ہیں تو حکومتی اداروں کو اشد ضرورت ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تمام قوانین میں ترامیم کیں اور Modren technology کو استعمال کرکے عدالتی نظام کو مزید فعال بنایا جائے۔
وکلاء کی ٹریننگ اس زمرے میں اشد ضروری ہے تاکہ وہ کورٹس معیار فراہم کرسکیں۔ تھانے اور پولیس کلچر تبدیل کرنا چاہیے Prosecution ڈیپارٹمنٹ میں Prosecutors کی ٹریننگ فوری اور سستے انصاف کے لیے ناگزیر ہے۔ موثر ترامیم کرکے انصاف بروقت فراہم کیا جائے تاکہ اس رجحان کو مات دی جائے کہ ایک Generation مقدمہ دائر کرتی ہے جبکہ دو تین Generations اس کو بھگتتی ہیں۔ گواہوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جاسکیں تاکہ ہر کوئی قانون کے دروازے پر دستک دے سکے۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے اس چیز کا سدباب کرنا چاہیے۔
پاکستان آہستہ آہستہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام میں بھی کچھ اصلاحات ہورہی ہیں جو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوں گی جیسا کہ گواہوں کی شہادت Audio and video recorders کے ذریعے ریکارڈ کی جارہی ہیں جو کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پر کیا جارہا ہے۔ خواتین کے لیے بہت سے قوانین اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جارہا ہے جو کہ پاکستانی عدالتی نظام کا بہتری کی طرف گامزن ہونے کی نشاندہی ہے۔ جیل خانہ کے نظام میں بھی اصلاحات کا نفاذ ہونا چاہیے۔ زیر حراست اور زیر ٹرائل قیدیوں کو عدالت لانے، پہچانے کا موثر نظام ہونا چاہیے۔ Banch اور Bar کا باہمی اتحاد بھی خاطر خواہ اہمیت کا حامل ہے۔ معاشرے میں جب تک انصاف اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا۔ ہمارا معاشرہ بدامنی، بدحالی اور عدم تحفظ کا شکار رہے گا۔ دور جدید سے لے کر آج تک معاشرے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے پروان چڑھے ہیں۔ عدلیہ کے منصفانہ فیصلے ہی معاشرے میں امن و امان یقینی بناسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کریں اس کے بغیر ہمہ گیر ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء
تبصرہ