تحریکِ پاکستان میں علماء کا کردار
نوراللہ صدیقی
برصغیر پاک و ہند کے علمائے کرام نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ساتھ دے کر حصول پاکستان کی منزل کو قریب تر اور جدوجہد کو مختصر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات بطورِخاص قابلِ ذکر ہے کہ آخر علمائے کرام نے ایک ایسی شخصیت کا ساتھ دینے کا ارادہ کیوں کیا جو بظاہر آزاد خیال نظریات اور فکری خدوخال کی حامل تھی، جس کی اسلام کے بارے میںمعلومات بذریعہ عربی زبان نہیں بلکہ انگریزی زبان تھی؟ اس حوالے سے کوئی واضح اظہارِ خیال سے قبل ہمیں علمائے ہند کے بارے میں بھی مختصر معلومات جاننا ہوں گی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے اسلامی تاریخ کے اندر علماء و مشائخ نے تاریخ کے ہر دور میں تعمیرِ ملت کے ضمن میں بہت مخلصانہ خدمات انجام دیں اور ملتِ اسلامیہ کو صراطِ مستقیم سے آگاہ رکھا۔ علمائے کرام نے راہِ حق میں ہمیشہ کلمۂ حق بلند کیا اور ہمہ وقت بڑی سے بڑی جانی و مالی قربانی کے لئے پر عزم رہے۔معتبر اور جید محدثین اور ائمہ کرام نے بھی اپنے اپنے وقت میں کلمۂ حق بلند کرنے کی پاداش میں صعوبتیں برداشت کیں۔اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کاایک بہت ہی خوبصورت جملہ احوال کی ترجمانی کرتا ہے کہ قرآن کی تعلیمات اور حکمران کی خواہشات یکجا نہیں ہوتیں۔ حکومت حاصل کرنے، اسے چلانے اور مستحکم کرنے کے لئے بسااوقات وہ وہ ہتھکنڈے بروئے کار لانا پڑتے ہیں کہ قرآن جن کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ حق نے جب کلمۂ حق بلند کیا تو وہ اہلِ دربار کی سماعتوں پر ہمیشہ ناگوار گزرا اور پاداش میں علماء و محدثین کو ناقابلِ بیان تکالیف، مصائب اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ائمہ حق نے مسلم حکمرانوں کے عہدِ اقتدار میں جن مسائل کا سامنا کیا، وہ بہت ہوشربا ہیں۔ یہ ایک الگ مضمون کا مواد ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ نے دورِ اکبری و جہانگیری میں ان کے خود ساختہ دینِ الٰہی کے تاروپود بکھیرنے کے لئے جس جرأت و مردانگی کا مظاہرہ کیا، تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حضرت مجدد علیہ الرحمہ نے دو قومی نظریہ کا دفاع کرکے یہ واضح کیا کہ مسلمان کی شناخت، پہچان، تہذیب و تمدن، ثقافت، بول چال، فکر و عقائد ہر اعتبار سے جداگانہ شناخت اور اپنا تشخص رکھتے ہیں۔ اس کلمۂ حق پر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تکالیف کا سامنا کیا۔
برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز 1857ء کی جنگ آزادی سے ہوتا ہے۔ اس جنگ میں بھی جانی و مالی قربانیاں دینے والوں میں علماء، مشائخ سرفہرست رہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اندر سب سے پہلا سفر نامہ مولانا جعفر تھانیسری نے لکھا۔ اس سفر نامہ کا نام ’’جزائر انڈیمان‘‘ یعنی سزائے کالا پانی تھا۔اس سفر نامے کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام نے غاصب انگریز کا مقابلہ کرتے ہوئے بہت تکالیف کا سامنا کیا اور علماء کی بڑی تعداد کو گرفتار کر کے کالا پانی بھجوایا گیا۔ ’’جزائر انڈیمان‘‘ کلکتہ سے مغرب کی طرف لگ بھگ پانچ سو کلومیٹر کی مسافت پر تھے۔ خشکی کے اس ٹکڑے کو انگریزوں نے جیل کادرجہ دیا اور انگریز سرکار کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کوگرفتارکر کے کشتیوں پرسوار کر کے ان جزائر تک پہنچا دیاجاتا تھا جہاں سے واپسی ناممکن تھی کیونکہ یہ طویل ترین سفر اس وقت کشتیوں کے ذریعے ہی ممکن تھا اور یہاں جانے والوں کی ہمیشہ لاشیں ہی واپس آتی تھیں۔ اس دور میں ’’جزائر انڈیمان‘‘ کو کالا پانی سے اس لئے تعبیر کیا جاتا تھا کیونکہ یہ اصطلاح موت کی وادی کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ الغرض جہاں علمائے کرام نے حق کے لئے لازوال قربانی کی داستانیں رقم کیں وہاں کچھ علماء ایسے بھی تھے جنہوں نے دنیوی فوائد کے لئے انگریزوں کا ساتھ دیا اور بانی پاکستان پر کفر اور فسق و فجور کے فتوے صادر کئے۔
سوال یہ ہے کہ علمائے کرام قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی فکر پر جمع کیسے ہوئے اور تحریکِ آزادیٔ پاکستان کے اندر ان کی بے مثال جدوجہد تاریخ کا حصہ کیسے بنی؟ یاد رہے کہ بلا شبہ بانی پاکستان مغربی بود و باش کے حامل تھے مگر ان کے سینے میں عشق مصطفی ﷺ سے لبریز دل دھڑکتا تھا۔ وہ بلاجھجک پاکستان کو اسلام کی ایک تجربہ گاہ بنانے کی فکر رہتے تھے۔ بانی پاکستان اگرچہ پاکستان کو کسی قسم کی مُلا سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ان کے سیکڑوں ارشادات تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں، تاہم اس کے برعکس وہ ایسا پاکستان نہیں چاہتے تھے جو نظریہ اور فکر کے اعتبار سے مادرپدر آزاد ہو۔ قائداعظم پاکستان میں شریعت محمدی ﷺ کا اجالا چاہتے تھے۔ وہ ریاستِ مدینہ ماڈل کے داعی تھے۔ ان کی اسی فکر نے علمائے کرام کی توجہ حاصل کی اور علمائے ربانی ان کی قیادت میں پاکستان کی جدوجہد کے ہر اول دستے بن گئے۔
تحریک پاکستان میں علامہ فضل الحق خیرآبادی، شاہ احمد سعید بریلوی، شاہ احمدللہ شاہ مدراسی، مفتی کفایت علی کافی، مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا امام بخش صہبائی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، پیر سید جماعت علی شاہ، محدث علی پوری، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمتہ اللہ علیہم نے تحریک آزادی میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور عوامی شعور کو بیدار کیا۔ اللہ تعالیٰ ان علمائے حق کے درجات بلند فرمائے۔
آئیے! ہم بانی پاکستان کے ان افکار کا تذکرہ کرتے ہیں جو علمائے حق کی توجہ کا باعث بنے:
1۔ 13جنوری 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں حصولِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے بانی پاکستان نے قوم کو یاد دلایا تھا کہ: ’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔
2۔ کراچی میں ایک موقع پر 1943ء کو بانی پاکستان نے فرمایا: ’’ وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب ایک امت‘‘۔
3۔ 1943ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا: ’’ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوں؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے 13 سو سال قبل فیصلہ کر دیاگیا تھا۔‘‘
4۔ 1944ء میں بانی پاکستان نے گاندھی کو خط لکھتے ہوئے کہا: ’’قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔یہ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک قول، فعل اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و مابعد کے ہر معیار اور مقدار کے مطابق کہتا ہوں‘‘۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اگست 2021ء
تبصرہ