خوشحال اور پرامن معاشرہ مگر کیسے؟
سمیعہ اسلام
قیام امن انتہائی اہم اور ان بنیادی امور میں سے ہے جن سے کوئی بھی معاشرہ کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ اسی کی بدولت انسانی زندگی خوشحال اور پرسکون بن سکتی ہے۔ دین اسلام نے سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا ہے وہ قیام امن ہی ہے۔ اسلام نے قیام امن کو معیشت پر ترجیح دی ہے۔ جیساکہ حضرت ابراہیم کی دعا کو قرآن مجید نے اس طرح ذکر کیا ہے کہ:
رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ.
(البقره، 2: 126)
’’اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز‘‘۔
اس دعا میں سب سے پہلے امن کا ذکر ہے، اس کے بعد معیشت اور رزق کی بات ہے لهٰذا اس سے یہ معلوم ہوا کہ معاشرہ کو خوشحال بنانے کے لیے پہلے اس کو پر امن بنانا ناگزیر ہے۔ البتہ خوشحالی اور امن دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پُر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
پر امن معاشرے کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امن کیا ہے؟ کو سمجھا جائے۔ امن ایسی کیفیت ہے جس میں ڈر اور خوف نہ ہو، سکون ، چین اطمینان۔ آرام اور صلح ہی امن ہے۔ امن کا ماحول ایسا ہوتا ہے جہاں حالات معمولات بغیر تشدد کے حل ہو رہے ہوں۔
اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو دین اسلام کی اساس ہی امن و سلامتی پر ہے۔ اسلام امن کی ضمانت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰ مَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ.
(قریش، 106: 4)
یعنی جس اللہ نے بھوک کی حالت میں انھیں کھانے کو دیا اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا۔
رزق اور امن دونوں عظیم نعمتیں ہیں انہیں اللہ نے بطور یاد دہانی ذکر کیا ہے۔ بیت اللہ کی تعمیر کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے جو دعائیں کی ان میں سے ایک دعا یہ بھی تھی:
رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِناً وَّارْزُقْ اَهْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ.
(البقره، 2: 126)
اے میرے رب! اس کو پر امن شہر بنادیجئے اور یہاں کے رہنے والوں کو قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے۔
اسلام بد امنی کو پسند نہیں کرتا اسی لیے ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔
معاشرے میں قیام امن کیونکر ممکن ہے؟
(1) عدل وانصاف:
قیام امن کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی چیز عدل و انصاف ہے۔ جب کسی ملک کے عدالتی و معاشرتی نظام میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہوتی ہے، ہر فیصلہ انصاف پر مبنی ہوتا ہے، غریب وامیر کے لیے یکساں قانون ہوتا ہے، تو وہ ملک اور معاشرہ امن کے گمشدہ پرندے کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جب معاشرے میں عدل وانصاف رواج پذیر ہوتا ہے، حقدار کو اس کا حق ملتا ہے، اور مجرم کو سزا ملتی ہے، تو معاشرے میں محبت، امن، اخوت اور بھائی چارگی کی فضا پھیلتی چلی جاتی ہے، اور پھر خود بخود معاشرہ سکون کا سانس لینے لگتا ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کادور خلافت امن و امان کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا، بڑی وجہ عدل و انصاف کا بہترین نظام تھا، آپ عدل و انصاف پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ جب تک معاشرے میں امیر و غریب، حاکم و محکوم اور آمر مامورکے لیے یکساں قانون نہیں ہوتا تب تک قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
(2) تعلیم و تربیت:
قیام امن کے حوالے سے دوسری اہم چیز درست تعلیم و تربیت ہے، جو انسان کو جہالت و ظلمت کے گھپ اندھیروں سے نکال کر علم و عرفان اور شعور و آگہی کی زینت سے مزین کرتی ہے، اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ اور ماحول تشکیل دینا ہوتا ہے جہاں مختلف الطبع لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور برداشت کرنے کا سلیقہ سیکھ کر امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ تعلیم و تربیت کو مختلف تہذیبی دائروں میں امن و سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر انسان کی صحیح تعلیم وتر بیت نہ کی جائے اور اس کو خود رو گھاس کی طرح چھوڑ دیا جائے تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، اور ایسی مکروہ حرکات کرنے لگتا ہے جس کی منفی اثرات کی وجہ سے پورا معاشرہ متاثر ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب انسانی ذہن اوائل عمری میں تعلیم و تہذیب کی اعلیٰ اقدار و روایات کے جانب مائل کردیا جائے، صحیح تربیت کی جائے، تو معاشرے میں امن واستحکام کی راہ میں کوئی روکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔
(3) مذہبی آزادی:
تیسری اہم چیز مذہبی آزادی ہے، کیوں کہ انسان فطرتی طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے، اسے اپنے ہر قول و فعل اور عمل میں آزادی حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، سمجھ بوجھ، غلط صحیح کی تمیز اور حق و باطل ظاہر کرنے کے بعد اسے مکمل بااختیار بنایا، کہ وہ جس پر چاہے عمل کرے، جس پر چاہے زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادے و اختیار کی مکمل آزادی دی ہے، دین و مذہب کے بارے میں وہ بالکل بااختیار ہے، رد و قبول کے فیصلے اس کے ہاتھ میں سونپ دیے ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مذہبی آزادی دی ہے اسی طرح ہمارے ملک کی بنیاد بھی مذہبی آزادی پر ہے، کسی بھی شہری کے لیے کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے، ہر شہری دوسرے مذاہب کا اور ان کے پیرو کاروں کا احترام کرتے ہوئے اپنے دین و مذہب پر عمل کرسکتا ہے، کیوں کہ مذہبی آزادی امن امان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جب مذہبی آزادی ہوتی ہے تو معاشرے میں مساوات اور برابری برقرا رہتی ہے، جب معاشرے میں مساوات اور برابری برقرارہے گی تو امن وامان کی فضا قائم ہوگی، اسی وجہ سے مذہبی آزادی ضروری ہے، اس کے بغیر قیام امن ایک مشکل امر ہے۔
(4) تعلیمی ادارے:
چوتھی بنیادی چیز تعلیمی ادارے ہیں۔ کسی بھی ملک اور معاشرے میں تعلیمی اداروں کو اہم مقام حاصل ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے اپنی مخلصانہ کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک عظیم قومی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔ تعلیمی ادارے جب تک نسل نو کو جدید علوم سے آرستہ کرتے ہوئے ان کے ذہن و کردار کی پرورش میں حصہ نہیں لیتے تو ایک بہترین قوم کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ تعلیمی ادارے عملی طور پر طلبہ و طالبات کی صحیح تربیت کریں گے، تو کچھ بعید نہیں کہ معاشرہ اور سماج امن وامان کی بہترین کی طرف گامزن ہوجائے۔
(5) تربیت معاشرہ:
امن و امان کے قیام کے بنیاد ی محرکات میں سے ایک تربیت معاشرہ بھی ہے۔ قیام امن کے لیے جس طرح عدل و انصاف، تعلیم و تربیت، مذہبی آزادی، اور تعلیمی اداروں کی تربیت ضروری ہے، اسی طرح تربیت معاشرہ بھی ازحد ضروری ہے۔ اس کے بغیر امن کی آس لگانا بے سود ہے۔ تربیت معاشرہ کسی خاص فرد یا ادارے کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ اگر والد ہے تو اولاد، ٹیچر ہے تو طلبہ و طالبات اور کسی ادارے کا سربراہ ہے تو ماتحت، ان سب کی صحیح تربیت کرنا ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ معاشرے میں امن اور خوشحالی ہوگی تو سب لوگ پرسکون زندگی بسر کرسکیں گے۔ اس لیے ہمیں امن و امان کی مخدوش صورت حال قابو پانے کے لیے ان مذ کورہ امور پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔
خوشحال معاشرے کے بنیادی عناصر:
سماجی انصاف:
سماجی انصاف سے ہم ہمیشہ یہی مراد لیتے ہیں کہ امیر اور غریب میں کوئی فرق نہ ہو، مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہوں اور کسی کو بھی دوسرے فرد کا استحصال کرنے کی اجازت نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ معاشرہ بھی سماجی انصاف کا حامل سمجھا جائے گا جہاں تعلیم سب کے لیے ہو اور ایک جیسی ہو، قانون کی ہر صورت عمل داری ہو، کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو، معاشی حیثیت کی بنیاد پر چارا دستی نہ ہو، نسل، حسب نسب، مکتب، مذہب، رنگ، علاقے کی بنیاد پر انصاف کے نظام پر اثر نہ پڑے، وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو، کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ ملے۔ جبراً کوئی کسی پر بھی قابض نہ ہو، کوئی کسی بھی فرد کی حق ملکیت، اس کی عزت پر اثر انداز نہ ہو، لیکن ان سب عوامل کے علاوہ بھی بہت سے ایسے نکات ہیں جو معاشرے میں انصاف کی عکاسی کرتے ہیں اور انصاف کی اکائی سمجھے جاتے ہیں۔
عدل و انصاف:
اسلام نے عدل وانصاف اور مساوات پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِینَ لِلّہِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِیرٌم بِمَا تَعْمَلُونَ.
(المائده، 5: 8)
اے ایمان والو! اللہ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اللہ سے ڈرا کرو، بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ.
المائده، 5: 42
اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)، بیشک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
اسلام نے باہمی تعلقات اور لین دین میں دیانت داری، عدالتی معاملات میں سچی گواہی اور عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے تا کہ حقوق العباد متاثر نہ ہوں۔ اس لیے حق دار کو حق دلانے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے عدالتوں کا نظام قائم کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم کا فرمان ہے: ’’جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔
اقتصادی ترقی:
خوشحال معاشرے کے بارے میں ایک روایتی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی معاشی ترقی ہی قوم کی خوشحالی کا باعث ہوسکتی ہے۔ جبکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق معاشرتی ترقی کے اس روایتی تصور پر سنجیدہ سوالات اٹھانے سے اقتصادی اور سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ایسی صورت حال میں خوشحالی کا اقتصادی ترقی کے ساتھ ربط و ملاپ پر دو محققین نے انگلی اٹھائی ہے۔ انہوں نے معاشرتی خوشحالی کو پائیدار ترقی اور ماحولیاتی استحکام کی بنیاد قرار دیا ہے۔
جرمنی کے مشہور اقتصادی ادارے کیل انسٹیٹیوٹ برائے عالمی اقتصاد کی محققہ کاتارینا لیما ڈی مرنڈا نے اپنی ریسرچ میں خوشحالی کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ اس ریسرچ کا نام 'دی ری کپلنگ ڈیش بورڈ رکھا گیا ہے۔ اس میں لوگوں کی معاشی ترقی کو ملکی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے علیحدہ کر کے دیکھا گیا ہے۔ اس نئے ماڈل میں اتفاق کیا گیا کہ اقتصادی ترقی کسی بھی قوم کے لیے بہت ضروری ہے لیکن یہ خوشحالی کا مکمل معیار ظاہر نہیں کرتی اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس قوم کے اندر ماحولیاتی استحکام کے ساتھ ساتھ با اختیار ہونے (empowerment) اور مجموعی یک جہتی کو بھی پرکھا جائے۔ اس تناظر میں دونوں محققین نے مختلف امور کو بھی خوشحالی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
ریسرچ کو با اختیار بنانے کے حوالے سے یہ پرکھا گیا ہے کہ کسی بھی قوم یا ملک میں مجموعی سماجی 'امپکٹ کی کیفیت کیا ہے، اوسط عمر کتنی ہے، تعلیم پر توجہ کتنی مرکوز کی یا کرائی گئی ہے اور اس کے علاوہ حکومتی اقدامات سے لوگوں کے اعتماد کی سطح کیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی بھی معاشرے کے افراد میں اعتماد برقرار رکھنے یا بحال کرنے کے اقدامات کے تناظر میں با اختیار بنانے والے اداروں اور قومی حکومت کا کردار کتنا اہم ہے اسی طرح یک جہتی کے انڈیکس میں یہ شامل کیا گیا کہ کسی بھی قوم کے افراد میں اجنبیوں یا غیر ملکی افراد کی مدد کرنے کا جذبہ کتنا ہے اور وہ کس حد تک رقوم عطیہ کرنے کے جذبے کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں میں رضاکارانہ خدمات کا کتنا جذبہ ہے اور سال میں رضاکارانہ سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افراد میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنے کے علاوہ مشکل میں اُن کی مدد کرنے کی کتنی استطاعت ہے۔ کیونکہ آج کل دنیا کے اندر جتنے بھی مسائل موجود ہیں خواہ وہ مہنگائی کا ہو، کرپشن ہو، بے روزگاری ہو، امن وامان کی صورتحال ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو سب کا تعلق معاشرے سے ہے اور معاشرے کا تعلق فرد سے ہوتاہے۔ افراد ہی بگاڑ کا شکار ہوں تو معاشرہ کس طرح ترقی کر سکتاہے لهٰذا خوشحالی کے لیے اقدامات کرنا صرف حکام بالا ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ انفرادی طور پر ہر فرد کا بنیادی فرض ہے۔
پر امن معاشرے کے لئے آج ہمیں انفرادی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر عدم برداشت کے خاتمے سے ہی ہم معاشرہ میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلاف کے باوجود تشدد کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہم تنگ نظری اور متعصبانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کر کے رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے امن آئے گا، ڈر اور خوف کا خاتمہ ہو گا اور ہم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔ امن کے ساتھ ہی افراد، علاقہ ، ملک اور خطہ ترقی کر سکتا ہے۔ ہمیں امن کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا تاکہ اپنی ہی نہیں اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کی بنیاد مضبوط کر سکیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2020ء
تبصرہ