اسمبلیوں کے خلاف مہم جوئی کرنے والے مراعات لینا بند کر دیں: خرم نواز گنڈاپور
سپیکر ”بلوائی“ اراکین اسمبلی کی تنخواہیں بند کرنے کی رولنگ دیں، سیکرٹری جنرل
ڈاکٹر طاہرالقادری نے انتخابی اصلاحات کیلئے مینار پاکستان پر سب سے بڑا جلسہ کیا
کورونا سے بچاؤ کیلئے تعلیمی ادارے بند ہو سکتے ہیں جلسہ جلوس کیوں نہیں؟
سزا یافتہ عناصر کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگلنے پر پیمرا کے منہ میں گھگھنیاں کیوں؟
لاہور (13 دسمبر 2020ء) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں مسائل زیر بحث نہیں آنے تو ان ایوانوں پر قوم کے اربوں روپے خرچ کیوں ہو رہے ہیں؟ اسمبلیوں کو ختم کرنے کی مہم چلانے والے انہی اسمبلیوں کا حصہ رہ کر تنخواہیں اور مراعات بھی لے رہے ہیں، اپوزیشن کے ممبرز استعفے جب مرضی دیں مگر قوم کے خون پسینے کے ٹیکسوں کی کمائی سے چلنے والی اسمبلیوں سے تنخواہیں اور مراعات لینا بند کر دیں، قومی دولت کا تحفظ ہر شہری کی قومی ذمہ داری ہے، سپیکر ''بلوائی'' اراکین اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات روکنے کی رولنگ دیں، اسمبلیوں کے خلاف احتجاج بھی تنخواہیں اور مراعات بھی یہ منافقت اور دھوکہ دہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 11 جماعتیں ملک بھر سے لوگ مینار پاکستان لا رہی ہیں، کرپٹ اشرافیہ کے موقف میں دم خم ہوتا تو ڈیڑھ کروڑ آبادی والے لاہور سے 50 سے 60 ہزار بندے نکالنا کوئی مشکل کام نہیں تھا، دسمبر 2012 میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے شفاف انتخابات اور انتخابی اصلاحات کے لئے جو جلسہ کیا تھا اس جیسا عوامی جلسہ تاریخ میں ہوا اور نہ ہوگا، دوبارہ بھی ویسا جلسہ اگر کریں گے تو وہ صرف عوامی تحریک کے کارکنان ہی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہمیشہ عوامی اور قومی ایشوز کو اجاگر کیا، قوم کو ایجوکیٹ کیا جس کا اعتراف اپنے اور پرائے سبھی کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کورونا وائرس پھیل رہا ہے حکومت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے تعلیمی ادارے بند کرکے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا سکتی ہے تو جلسہ جلوس پر پابندی کیوں نہیں لگاتی؟ انہوں نے کہا کہ ریاست مخالف بیانیہ کی چینلز پر بھرپور پروموشن ہوگی تو انتشار اور بدامنی بڑھے گی، حیرت ہے پیمرا نے کرپٹ اور سزا یافتہ سیاستدانوں کو فوج، عدلیہ کے خلاف زہر اگلنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، اور کارروائی کرنے کی بجائے پیمرا ذمہ داروں نے منہ میں گھگھنیاں کیوں ڈال رکھی ہیں۔
تبصرہ