سانحہ ماڈل ٹاؤن، آئی جی ملوث افسروں کو عہدوں سے ہٹائیں
قاتل افسران کے ہوتے ہوئے آئی جی پنجاب جرائم پر قابو کیسے پا سکتے ہیں؟
سانحہ ماڈل ٹاؤن پنجاب پولیس کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، وکلاء
پولیس افسروں نے ترقیوں کے لالچ میں باپردہ خواتین پر گولیاں برسائیں
رہنما عوامی تحریک نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، آصف سلہریا ایڈووکیٹ کا بیان
لاہور (10 نومبر 2020ء) پاکستان عوامی تحریک کے وکلاء رہنماؤں نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، آصف سلہریا ایڈووکیٹ نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پنجاب پولیس کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، آئی جی پنجاب سانحہ میں ملوث پولیس افسروں کو فیلڈ ڈیوٹی سے ہٹائیں اور انہیں لائن حاضر کریں۔ قاتل افسران کے ہوتے ہوئے آئی جی پنجاب جرائم پر قابو کیسے پا سکتے ہیں؟
پولیس افسروں نے ترقیوں کے لالچ میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے حکم پر باپردہ خواتین سمیت نہتے شہریوں پر گولیاں برسائیں، وکلاء رہنماؤں نے کہا کہ 17جون 2014ء کے دن پولیس افسران نے ریاست کے ادارے کے کسٹوڈین کی بجائے ایک خاندان کے نجی گارڈز والا کردار ادا کیا اور قانون، اخلاقیات اور انسانی اقدار کو بری طرح پامال کیا۔
انہوں نے کہا کہ جو گولیاں عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے عوام کے ٹیکسوں سے خرید کر انہیں دی گئی تھیں وہی گولیاں قانون اور امن پسند شہریوں پر برسائی گئیں، وکلاء رہنماؤں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شریف برادران کے حکم پر گھناؤنا کھیل کھیلنے والے پولیس افسروں کو جب تک انسداد دہشتگردی کی عدالت بے گناہ قرار نہیں دے دیتی تب تک ایسے تمام افسران کو لائن حاضر کیا جائے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے لیگل ترجمان نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملک کیلئے جانیں دینے والے افسران اور اہلکار محکمے کی عزت ہیں اور ذاتی مفاد کے لئے کسی کا آلہ کار بن کر معصوم شہریوں کے جان مال سے کھیلنے والے ناسور ہیں، ایسے عناصر کو پولیس کی بجائے جیلوں میں ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں رزق حلال کمانے والا عزت دار مرد کبھی باپردہ خواتین پر گولیاں نہیں چلا سکتا، ؟انہوں نے کہا کہ آئی جی پنجاب سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں کو کیس کے حتمی فیصلے تک عہدوں سے ہٹائیں۔
تبصرہ