سانحہ ماڈل ٹاؤن، مستغیث جواد حامد 2 اگست کو اے ٹی سی میں بیان قلمبند کروائینگے
پولیس کی درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 510 میں عوامی تحریک کے کارکن آج 259 ویں پیشی بھگتیں گے
فیسوں کی مد میں کروڑوں روپے کے اخراجات ہوچکے تاحال انصاف نظر نہیں آتا:خرم نواز گنڈاپور
کیا کوئی ماڈل کورٹ ایسی بھی ہے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس نمٹا سکے؟ سیکرٹری جنرل PAT
لاہور (یکم اگست 2019ء) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے سلسلے میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے مدعی مستغیث جواد حامد 2 اگست کو انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں اپنا بیان قلمبند کروائیں گے، پاکستان بار کونسل کی ہڑتال کے باعث گزشتہ تاریخ پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکی تھی، سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے سابق آئی جی مشتاق سکھیرا، سابق ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، سابق ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان، ایس پی علی سلیمان، طارق عزیز، معروف صفدرواہلہ، عمر ورک سمیت 114 پولیس افسران اور اہلکاروں کو بطور ملزم طلب کررکھا ہے جبکہ شریف برادران رانا ثناء اللہ، حمزہ شہبازشریف سمیت 12 افراد کی طلبی کیلئے شہداء کے ورثاء نے سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ انصاف کے لیے 5 سال سے عدالتوں کی دہلیز پر بیٹھے ہیں، فیسوں کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود تاحال انصاف نہیں ملا، ہمارے لیے صرف اتنی تبدیلی آئی ہے کہ سابق دور حکومت میں کوئی وکیل سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس لڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا تھا، اب وکیل ملنے کی حد تک تو ہماری تکلیف ختم ہو گئی لیکن حصول انصاف کا مرحلہ ابھی باقی ہے، پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر عوامی تحریک کے 42 کارکنان کے خلاف درج کی تھی اور اس ایف آئی آر کے تحت 5 سالوں میں ہمارے بے گناہ کارکن 259 تاریخیں بھگت چکے تاحال انہیں بھی انصاف نہیں ملا، دوسری طرف جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم و بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی، ان 107 کارکنوں کو انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا نے 5 سے 7 سال کی سزا سنا دی اور وہ سارے کارکن صوبہ کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ کیا کوئی ماڈل کورٹ ایسی بھی ہے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کا فیصلہ دنوں میں سنا سکے؟انہوں نے مزید کہا کہ 5سال سے ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے تاحال یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ غیر جانبدار تفتیش میں کیا امر مانع ہے جو اس کے راستے میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انصاف عدالتوں نے دینا ہے اس لیے ساری توجہ حصول انصاف کی طرف ہے اور عدالتوں سے انصاف مانگ رہے ہیں۔
تبصرہ