اقامہ، آف شور کمپنیوں، جعلی اکاؤنٹس کی ملکیت سے بھی انکار کیا گیا تھا: خرم نواز گنڈاپور
اے این ایف بین الاقوامی شہرت یافتہ قومی ادارہ ہے آلہ کار نہیں بن سکتا: سیکرٹری جنرل پی اے ٹی
قومی لٹیروں کو 21 ڈاکٹر دینے کی بجائے 21 توپوں کے سامنے کھڑا کر کے ’’سلامی‘‘ دی جائے
جسے اپنے کرتوتوں کا پتہ ہوتا ہے اسے پکڑے جانے کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے: نور اللہ صدیقی
ماضی میں ن لیگ کی مخالف جماعتیں رانا ثناء اللہ کو جرائم پیشہ قرار دیتی رہی ہیں
کیا چوہدری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کی قتل و غارت گری پر پریس کانفرنس نہیں کیں تھیں
لاہور (02 جولائی 2019) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ اقامہ، آف شور کمپنیوں، جعلی اکاؤنٹس کی ملکیت سے بھی انکار کیا گیا تھا جو بعد ازاں ٹرائیل میں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئے۔ رانا ثناء اللہ کی منشیات گردی پر اپوزیشن اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے مت جاری کرے جب کیس کورٹ میں چلے گاتودودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اے این ایف بین الاقوامی شہرت یافتہ قومی ادارہ ہے آلہ کار نہیں بن سکتا۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو بے گناہوں کو قتل کروا سکتا ہے منشیات کی خرید و فروخت اور نقل و حمل اس کےلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ 15کلو ہیروئین برآمدگی پر سزا دلوانا اے این ایف حکام کی قانونی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیگی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ رانا ثناء اللہ 6 ماہ سے کہہ رہا تھا اسے گرفتار کر لیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ جسے اپنے کرتوتوں کا پتہ ہوتا ہے اسے پکڑے جانے کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے، یہ دھڑکا شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، رانا مشہود، احسن اقبال کو بھی لگا ہوا ہے۔ ماضی میں ن لیگ کی مخالف جماعتیں رانا ثناء اللہ کے جرائم پیشہ ہونے پر اسمبلیوں میں لیکچر دیتی رہی ہیں۔ کیا چوہدری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کی قتل و غارت گری اور قبضہ مافیا کی سرپرستی کرنے کے الزامات نہیں لگائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کو منشیات کیس میں سزائے موت ہوئی تو اسکی سب سے زیادہ خوشی نواز شریف اور شہباز شریف کو ہو گی کیونکہ اشرافیہ کی مجرمانہ سرگرمیوں کا ایک چشم دید گواہ رانا ثناء اللہ بھی ہے۔ رانا ثناء اللہ زندہ رہا تو ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف اور شہباز شریف پھانسی سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ رانا ثناء اللہ نجی محفل میں اعتراف کر چکے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کا حکم انہیں نواز شریف نے دیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش پر سٹے آرڈر ہٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نور اللہ صدیقی نے پنجاب حکومت کے ترجمان شہباز گل کی پریس کانفرنس پر کہا ہے کہ ایک مجرم کےلئے 21 ڈاکٹر اور 21 افراد پر مشتمل طبی عملہ کیوں تعینات کیا گیا ہے، بقول انکے اتنا طبی عملہ صدر مملکت، وزیر اعظم، آرمی چیف سمیت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست ایک سزا یافتہ مجرم کے سامنے بھیگی بلی کیوں بنی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ قومی لٹیروں کو جیلوں میں پروٹوکول دینے کی بجائے انہیں 21 توپوں کے سامنے کھڑا کر کے ’’سلامی‘‘ دی جانی چاہیے۔
تبصرہ