سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں: عوامی تحریک
جے آئی ٹی سانحہ سے متعلق کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتی ہے
رانا ثناء اللہ کی طرف سے جے آئی ٹی کو غیر قانونی کہنا سپریم کورٹ کی توہین ہے
لاہور (20 جنوری 2019) ادارہ منہاج القرآن کے ایڈمنسٹریٹر اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں ایف آئی آر نمبر 696 کے مدعی جواد حامد نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نامزد ملزمان سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار کو سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے طلب کیا ہے، رانا ثنا اللہ کا دامن صاف ہے تو وہ جے آئی ٹی میں پیش ہو کر اپنا موقف دیں، جے آئی ٹی کو غیر قانونی کہنا سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کی توہین ہے، پیش ہونے سے انکار اعتراف جرم ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکمران چونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث تھے اس لئے انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند نہیں ہونے دیئے تھے اور یکطرفہ چالان اے ٹی سی میں پیش کیا تھا جن دنوں جے آئی ٹی تحقیقات کر رہی تھی ان دنوں شہبازشریف اور رانا ثنا اللہ کے حکم پر پولیس نے پنجاب بھر میں عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا تھا تاکہ کوئی چشم دید گواہ گواہی کے لئے پیش نہ ہو سکے اور سابق حکمرانوں نے اپنے خاص تابعدار پولیس افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنوائی اور پسند کی رپورٹ حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی ہمارا موقف تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ دوسرے صوبے سے لیا جائے، تاکہ غیر جانبدارنہ تحقیق ہو سکے انھوں نے کہا کہ سابق حکمرانوں کی بنائی جے آئی ٹی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا فرانزک معائنہ کروانے سے بھی انکار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قاتل جتنا مرضی شور مچا لیں ان کے جرم کی گواہی سانحہ کے شواہد خود دیں گے۔
سینئر وکیل اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی تحقیقات کے دوران کسی بھی کیس سے متعلقہ شخص کو ناصرف طلب کر سکتی ہے بلکہ گرفتار بھی کر سکتی ہے بطور وزیر قانون 10 سال پنجاب میں کام کرنے والے رانا ثنا اللہ کی طرف سے جے آئی ٹی کو غیر قانونی کہنا ناصرف سپریم کورٹ کی توہین ہے بلکہ آئین پاکستان کے تحت بننے والے قوانین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ جے آئی ٹی کی قانونی حیثیت سے اچھی آگاہ ہیں مگر ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
تبصرہ