سانحہ کے ماسٹر مائنڈز کی طلبی، سپریم کورٹ میں اپیل دائر
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں گزشتہ چار سال سے عدالتوں میں قانونی جدوجہد جاری ہے اور اس کے لیے سینئر وکلاء اور لیگل ٹیم حصول انصاف کے لیے برسرپیکار ہے، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا ایک ہی موقف ہے کہ 17 جون 2014ء کے قتل عام کے لیے پولیس آئی نہیں بلکہ بھیجی گئی تھی، لاشیں گری نہیں گرائی گئیں تھیں اور ہماری بہنوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو انتہائی بے دردی اور سفاکیت کے ساتھ شہید کیا گیا، درجنوں تھانوں کے اہلکار ، مختلف سپیشل فورسز کے شوٹرز، سنائپرز اور ڈی آئی جی کی سطح کے افسرسے لے کر انسپکٹر کی سطح کے درجنوں سینئر افسران ازخود مختصر سے وقت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے سامنے جمع نہیں ہو سکتے اور نہ ہی واضح حکم کے بغیر کوئی اہلکار یا پولیس افسر کسی شہری پر گولی چلانے کی جرأت کر سکتا تھا، منصوبہ کے تحت خون کی ہولی کھیلی گئی، پولیس کے ایس ایچ اوز، اہلکارسنگین جرائم میں ملوث ریکارڈ یافتہ اشتہاریوں کو بھی رات کے اندھیرے میں پولیس مقابلے میں پار کرنے کے جرم میں مختلف نوعیت کی محکمانہ اور جوڈیشل انکوائریاں بھگتتے ہیں اور جعلی پولیس مقابلوں کے مرتکب پولیس افسران اور اہلکار سزائیں بھی پاتے ہیں، ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، سبزہ زار لاہور کے ایک جعلی پولیس مقابلہ میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نامزد ہوئے اور ایک طویل عرصہ یہ کیس چلتا رہا کیونکہ اشرافیہ کے اس نظام میں غریب اور کمزور کی زندگی طاقتور اور بااثر قاتلوں کی زندگیوں سے کم تر ہیں، اسی لیے سبزہ زار جعلی پولیس مقابلہ کے ماسٹر مائنڈز کو سزا نہ مل سکی اور مقابلے میں مار دئیے جانے والے بچوں کی بدقسمت ماں کی آنکھوں میں تیرنے والے آنسو بھی منجمد ہو گئے، جس لاہور شہر میں اشتہاریوں کوخفیہ طریقے سے رات کے اندھیرے میں پولیس مقابلوں میں مارے جانے پر انکوائریاں ہوتی ہیں اسی شہر لاہور کے اندر دن کی روشنی میں معصوم شہریوں پر گھنٹوں آگ اور بارود کی بارش کی جاتی ہے اور کوئی محکمانہ انکوائری نہیں ہوتی؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کا حکم مقتدر ایوانوں سے دیا گیاتھا، اگر اس سانحہ کی غیر جانبدار محکمانہ انکوائری ہوتی تو جرم کا کھرا اعلیٰ ایوانوں اور شخصیات تک جاتا، اس لیے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نامزد ملزم شہباز شریف جب تک برسراقتدار رہے انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کوئی غیر جانبدار انکوائری نہیں ہونے دی اور جسٹس باقر نجفی کمیشن نے جو انکوائری کی اسے سابق حکومت نے آخری دم تک منظر عام پر نہیں آنے دیا، بالآخر لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک ہو سکی، جسٹس باقر نجفی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ حکومت پنجاب اس سانحہ سے بری الذمہ نہیں، پولیس نے وہی کیا جس کا اسے حکم اور مینڈیٹ دے کر بھیجا گیا تھا، اسی طرح جب شریف برادران اور ان کے حواریوں کی طلبی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تو طلبی بنچ کے سربراہ جسٹس قاسم علی خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا جتنی فورس محض بیریئرہٹانے کی آڑ میں بھیجی گئی کیا اتنی بھاری نفری کی ضرورت تھی؟ انہوں نے انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ استغاثہ کی منظوری کے مرحلہ پر بعض اہم واقعات کو نظر انداز کیا گیا جن کی بنیاد پر نامزد کیے گئے ملزمان کی طلبی کی جا سکتی تھی، انہوں نے لکھا کہ 16 جون 2014 ء کی اس میٹنگ کے منٹس کیوں نہیں منگوائے گئے جس میں ماڈل ٹاؤن آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا، انہی گراؤنڈز پر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے سپریم کورٹ میں شریف برادران کی طلبی کے لیے اپیل دائر کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے بھی نوٹس لے رکھا ہے، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا یہ موقف ہے کہ حقیقی ملزمان تک پہنچنے کیلئے اصل ملزمان کی طلبی اور سانحہ کی ازسر نو تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل ضروری ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2018ء
تبصرہ