سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈز کا شامل تفتیش ہونا انصاف کا ناگزیر تقاضا ہے: خرم نواز گنڈاپور
ریکارڈ یافتہ اشتہاریوں کو پولیس مقابلوں میں مارنے پر بھی محکمہ ذمہ داروں کی گرفت کرتا ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کے قتل عام پر چار سال گزر جانے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں ملی: سیکرٹری جنرل PAT
نئی جے آئی ٹی ضروری ہے، پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی: مخدوم مجید حسین شاہ ایڈووکیٹ
لاہور (24 اکتوبر 2018) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ شریف برادران اور حواریوں کی طلبی کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈز کا شامل تفتیش ہونا انصاف کا ناگزیر تقاضا ہے، ریکارڈ یافتہ اشتہاریوں کو پولیس مقابلوں میں مارنے پر بھی محکمہ ذمہ داروں کی گرفت کرتا ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کے قتل عام پر چار سال گزر جانے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں ملی، وہ گزشتہ روز شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا کیس لڑنے والی لیگل ٹیم کے سربراہ مخدوم مجید حسین شاہ ایڈووکیٹ سے گفتگو کررہے تھے۔
اس موقع پر نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ و دیگر رہنما موجود تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مخدوم مجید حسین شاہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ابھی بھی بہت سارے مسائل کا سامنا ہے، پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہمارے دو افراد جنہیں غلط طور پر پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں نامزد کیا تھا، ان سے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی نہیں بنائی جارہی، الزام لگانے والے ڈی آئی جی اور ایس پی کی سطح کے افسران ہیں، ایک انسپکٹر تنہا اس کی تفتیش کیسے کر سکتا ہے؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کسی ملزم سے بھی کوئی تنہا افسر انکوائری نہیں کر سکتا، انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے فیصلے پر پوری دنیا کی نظریں ہیں، اس لیے فیئر تفتیش کیلئے نئی جے آئی ٹی بنانا ضروری ہے۔
خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ صحافیوں نے جان خطرے میں ڈال کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کی براہ راست کوریج کی، آج اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس زندہ ہے تو اس میں محب وطن اور انسانیت دوست صحافی رپورٹرز کا بڑا کردار ہے، انہوں نے کہا کہ جس طرح صحافیوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے موقع پر مظلوموں کا ساتھ دیا تھا آج مشکل کی گھڑی میں ہم بھی ان کے ساتھ ہیں، ہم حکومت اور میڈیا ہاؤسز مالکان سے کہتے ہیں کہ وہ صحافیوں کا معاشی قتل عام نہ ہونے دیں، جن صحافیوں نے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کو اپنا خون پسینہ دے کر تن آور درخت بنایا آج انہیں اس درخت کی چھاؤں کے نیچے سے نہ اٹھایا جائے۔
تبصرہ