وزیراعظم نے ٹیلیفون کر کے انصاف کی فراہمی کے حوالے سے باردگر موقف کا اعادہ کیا: ڈاکٹر طاہرالقادری
جن کیخلاف کیس ہے وہ طلب نہیں ہوئے، بنچ کے سربراہ کا اختلافی نوٹ قابل توجہ ہے: ڈاکٹر طاہرالقادری
سازش کرنے والے ہمیشہ پس پردہ ہوتے ہیں، اپیل کے فیصلے میں انصاف کی روح کو پیش نظر نہیں رکھا گیا
بنچ کے سربراہ نے سوال اٹھایا کیا موسم خراب تھا جو طیارے کا رخ موڑا گیا، اس دن سول ایوی ایشن کا کنٹرول کس کے پاس تھا؟
سازش کرنے اور کرانے والے دونوں کی سزا موت ہے، سپریم کورٹ جارہے ہیں، امید ہے انصاف ملے گا
عدلیہ کا ہمیشہ احترام کیا، ججز نہیں ججمنٹ پر رائے دینا ہمارا حق ہے، چودھری پرویز الٰہی علیم خان بھی ملنے آئے
لاہور (27 ستمبر 2018) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کیخلاف کیس ہے وہ طلب نہیں ہوئے، بنچ کے سربراہ کا اختلافی نوٹ قابل توجہ ہے، سازش کرنے اور کرانے والے دونوں کی سزا موت ہے۔ 50 تھانوں کے 1 ہزار شوٹرز کس کے حکم پر ماڈل ٹاؤن جمع ہوئے؟ منصوبہ بندی اور سازش کرنے والے ہمیشہ پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، اگرپولیس کی بھاری نفری کو آئی جی نے بھیجا تو آئی جی کو راتوں رات کوئٹہ سے لاہور کس نے بھیجا؟ سانحہ کے منصوبہ ساز اورماسٹر مائنڈز طلب نہیں ہونگے تو ان سوالات کا جواب کون دے گا؟ پھانسی دلوانے کے لیے نہیں صرف ملزمان کی طلبی کے لیے عدالت عالیہ میں گئے تھے، سزا دینا یا چھوڑنا جرح کے بعد کا مرحلہ ہے۔ فیصلہ سناتے وقت انصاف کی روح کو پیش نظر نہیں رکھا گیا، فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرینگے، اس موقع پر خرم نواز گنڈاپور، فیاض وڑائچ، نوراللہ صدیقی، جواد حامد، چودھری شریف، سہیل رضا، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، میاں ریحان مقبول، قاضی فیض الاسلام موجود تھے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے بنچ کے سربراہ کے اختلافی نوٹ کے بعض اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بنچ کے سربراہ کے 13 سوال توجہ طلب ہیں اور شریف برادران کے سازشی کردار سے متعلق ہمارا بھی یہی موقف ہے
1۔ ٹرائل کورٹ نے کیس کو ڈیفنس کے اینگل سے دیکھا اور قانون شہادت کے ثقہ بند اصولوں کو نظر انداز کیا
2۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف احتجاج کا پروگرام بنانا اس واقعہ کا شاخسانہ بعیداز قیاس نہ ہے
3۔ ٹرائل کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کو پرکھنے کی زحمت بھی نہیں کی اور نہ ہی 16 جون کی میٹنگ کے منٹس کی معلومات لی
4۔ ٹرائل کورٹ نے یہ معلومات بھی نہیں لی کہ لاہور شہر میں کتنی اور جگہ پر اس طرح بیریئر لگے ہوئے تھے اور کیا وہ بیریئر بھی اسی انداز سے ہٹائے گئے؟
5۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ نے اپنے سیکرٹری توقیر شاہ کو Disengage کی بابت پوچھا اس نے کہا کہ یہ پیغام رانا ثناء اللہ کو دے دیا ہے
6۔ وزیر قانون نے یہ ہدایت سی سی پی او کو دی کہ یہ ٹاسک مکمل کرو
7۔ رات کے اندھیرے میں پولیس کی مسلح بھاری نفری کو بیریئر ہٹانے کی معقول وجہ نہ بتائی گئی، گورنمنٹ ایجنسیز ایسا دن کی روشنی میں کرتی ہیں
8۔ حقائق سے معلوم ہوا کہ یہ تمام واقعات ایک ہی مائنڈ سیٹ کا تسلسل ہیں
9۔ شہباز شریف، توقیر شاہ اور رانا ثناء اللہ کے بیانات جو جے آئی ٹی میں دئیے گئے کو ملا کر پڑھا جائے تو مستغیث کے موقف کو تائید ملتی ہے
10۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے طیارے کو راولپنڈی سے لاہور موڑا گیا اس کی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی گئی
11۔ طیارے کا رخ موڑنے کے حوالے سے ٹرائل کورٹ نے مندرجہ ذیل باتوں کو نظر انداز کیاگیا کہ اس سے پہلے نامساعد حالات میں کتنی پروازوں کا رخ موڑا گیا؟ کیا اس دن موسم خراب تھا؟ اور کیا محکمہ موسمیات کی رپورٹ منگوائی گئی؟ جب پرواز کا رخ تبدیل کیا گیا اس وقت کنٹرول سول ایوی ایشن کے پاس تھا یا کسی اور کے پاس؟ یہ سارے ثبوت جو مستغیث کی دسترس سے دور تھے ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا چاہئیں تھیں۔
12۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ایم ایل سی ظاہر کرتی ہیں کہ مضروب کرنے کا سلسلہ 9:20 منٹ کے بعد شروع ہوا جبکہ یہ واقعہ 9 بجے وزیراعلیٰ کے علم میں آچکا تھا
13۔ پولیس نے نہتے لوگوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کیا جن کی پولیس سے کوئی دشمنی نہیں تھی، صرف بیریئر ہٹانے کے مقصد سے اتنا ظلم اس بات کو اخذ کرنے کے لیے کافی ہے کہ کچھ انتہائی غلط یا گڑ بڑہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ بنچ کے سربراہ نے 71 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا جبکہ طلبی کے خلاف فیصلہ دینے والی جسٹس نے 33صفحات پر اپنی رائے دی اور بنچ کے ایک معزز رکن نے براہ راست کوئی کمنٹ نہیں کیا، 33 صفحات کے حق میں اپنی رائے دی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ اس امر میں ہمیں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران اور ان کے حواری ہیں، انصاف ذبح ہوا، اس ملک میں طاقتور سب کچھ ہیں اور کمزور کچھ بھی نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم کسی جج پر نہیں ججمنٹ پر رائے دے رہے ہیں، عدلیہ اور معزز ججز کے بارے میں آج تک نہ کبھی کوئی بات کی اور نہ کوئی اس حوالے سے کوئی توقع رکھے جو ہمارے حق میں کہا گیا اس کا ذکر کرنا ہمارا حق ہے حصول انصاف کی جنگ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لڑیں گے۔ حصول انصاف کے لیے جو بس میں ہوا کرتے رہیں گے، ہماری سب سے بڑی جیت ہی یہی ہے کہ ہم نے اس کیس کو داخل دفتر نہیں ہونا دیا، سانحہ کے بعد بھی قربانیاں دے کر اس کیس کو زندہ رکھا اور اس کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان صبح ٹیلیفون آیا۔ انہوں نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانے کے عزم کابار دگر اعادہ کیا اور کہا کہ قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں آنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے چودھری پرویز الٰہی، عبدالعلیم خان سے بھی ملاقات ہوئی یہ سب لوگ اول روز سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانے کی جدوجہد میں ساتھ ہیں۔
تبصرہ