غیر شائستہ زبان کا استعمال، سیاست اور ہماری ذمہ داریاں
انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن نے بعض سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کو انتخابی جلسوں کے دوران استعمال کی جانے والی زبان پر نوٹس بھیجے اور لیڈران کی طرف سے جو زبان استعمال کی گئی اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا، یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے مخالفین کو زچ کرنے کیلئے انتہائی غیر مہذب بلکہ بعض مواقع پر مخرب الاخلاق زبان اور ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور ایسی تنقید کا سہارا لیا گیا جس کی کسی تہذیب یافتہ معاشرے میں سرے سے گنجائش نہیں ہوتی، اگر گزری ہوئی تین دہائیوں کی ’جدید‘ تنقیدی سیاست پر نگاہ دوڑائیں تو اس ضمن میں نواز لیگ کا گھنائونا کردار نظر آتا ہے، نواز لیگ نے اس ضمن میں انتہائی افسوسناک لب و لہجہ اور رویہ اختیار کیا اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے مخالفین کو زیر کرنے کی خاطرہر موقع پر قانونی، اخلاقی حدود کو پامال کیا، ن لیگ کے اس رویے کی وجہ سے میدان سیاست میں قدم رکھنے والی جماعتوں اور سیاستدانوں کو بھی اسی راستے پر چلنے پر مجبور کیا گیا اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا،یہ شاید پہلا انتخابی معرکہ تھا جس میں مرکزی قائدین کو نامناسب زبان کے استعمال پر باقاعدہ طلب کیا گیا، لیڈر کا کلام اور زبان قوم کی سیاسی تربیت اور تعلیم کا ایک بڑا ذریعہ ہوتی ہے مگر افسوس سیاسی لیڈر شپ نے اس ناگزیر تقاضے کو بری طرح نظر انداز کیا جس کے منفی اثرات سوسائٹی کے اجتماعی اخلاق پر مرتب ہورہے ہیں، مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ سیاسی انتہا پسندی بھی سوسائٹی کے اجتماعی امن کو نقصان پہنچانے کا باعث بنی ہوئی ہے اور فرقہ واریت، صوبائی عصبیت، محرومیوں کا شکار پاکستانی معاشرہ اب سیاسی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کے عمل سے دو چار ہے۔ جوں جوں وقت گزررہا ہے تنگ نظری، عدم برداشت کے غیر انسانی جذبات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، رہی سہی کسر لیڈروں کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان پوری کررہی ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ بھول رہی ہے کہ سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کیلئے وہ جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے آئندہ نسلوں کا اخلاق برباد ہورہا ہے اور اس کے منفی اثرات کا سامنا آج ہم زندگی کے ہر شعبے میں کرنے پر مجبور ہیں، حقیقی جمہوریت کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ یہ جمہور کا نظام کہلواتی ہے اور اس میں اعتدال، رواداری، وضع داری کا خیال رکھا جاتا ہے اور اکثریتی رائے کو کھلے دل، دماغ کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے، اس امر میں کوئی شبہ نہیں سیاست میں کرپشن، بداخلاقی، زبان درازی کے کلچر کو ن لیگ نے بنیادیں فراہم کیں، جیسے جیسے شریف خاندان کا ملکی سیاست میں عمل دخل بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے سیاسی مخالفین کے خلاف غیر شائستہ الفاظ کے استعمال اور لب و لہجے کا ماحول پروان چڑھتا چلا گیا، یہ نواز لیگ تھی جس نے ایک خاتون جسے دنیا محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے جانتی ہے ان کی اور ان کی والدہ محترمہ کی نجی زندگی کو سیاسی مقاصد کیلئے انتہائی نامناسب الفاظ اور تصاویر کے ساتھ اچھالا گیا، چادر، چاردیواری کے تقدس کو پامال کیاگیااور سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کیلئے ریاستی طاقت کا بے رحم استعمال کیا گیا اور سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کے منفی کلچر کو مضبوط کیا گیا، اسی طرح سیتا وائٹ کے ایشو کو اسی ن لیگ نے سیاسی مقاصد کیلئے سکینڈلائز کیا اور بدتہذیبی کی ہر حد عبور کی۔ حال ہی میں پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران نوازلیگی وزراء اور ترجمانوں نے جو زبان استعمال کی اور جس طریقے سے قومی سلامتی اور انصاف کے اداروںکو برا بھلا کہا اور اشتعال انگیزی کی کم از کم کسی سیاسی، جمہوری جماعت کا یہ شیوہ اور وطیرہ نہیں ہو سکتا۔ نواز لیگ کی طرف سے خواتین کے بارے میں پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر جس اخلاقیات کا مظاہرہ کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، نواز لیگ بطور جماعت صرف بدزبانی کرنے تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مخالفین کی جانیں لینا بھی ان کے نزدیک جائز اور روا ہے، یہاں تک کہ خواتین کو بھی قتل کر دینا انہیں زدوکوب کرنا ان کے ہاں قطعاً معیوب نہیں، سانحہ ماڈل ٹائون میں تنزیلہ امجد شہید اور شازیہ مرتضیٰ شہید کے ساتھ پیش آنے والے درندگی کے واقعات اس کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ لیگی لیڈر شپ کی طرف سے خواتین کے حوالے سے مجرمانہ ذہنیت کے اظہار کی بے شمار مثالیں اور واقعات میڈیا کی زینت بن چکے،انہیں دہرانا ہم سمجھتے ہیں کہ ایک طرح کی بداخلاقی ہو گی، تاہم وقت آگیا ہے کہ سیاستدانوں کو تمیز اور گفتگو کے طور طریقے سکھائے جائیںاور انہیں آزادی اظہار کی تربیت دی جائے،سیاستدانوں کی گندی زبان سے سوسائٹی کے اخلاق اور اقدار کو بچانا یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، اس کیلئے قوم کے پڑھے لکھے حلقوں بالخصوص میڈیا، سول سوسائٹی کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم جس الہامی ضابطہ حیات کے پیروکارہیں وہ اخلاق حسنہ کی بات کرتا ہے، وہ تو اس بات سے بھی روکتا ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جانے والوں کو زمانہ جاہلیت کے ناموں سے بھی مت پکارا جائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2018ء
تبصرہ