پاکستان عوامی تحریک کا 29 واں یوم تاسیس
نوراللہ صدیقی
ہر سال 25 مئی کو پاکستان عوامی تحریک کا یوم تاسیس منایاجاتا ہے۔ 25 مئی 1989ء کے دن موچی دروازہ لاہور میں جلسہ عام کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک ایسی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا منشور ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک جدید فلاحی، اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اپنے قیام سے لے کر آج کے دن تک عوامی تحریک نے نظام کی تبدیلی، عوامی شعور کی بیداری، انسانی حقوق کے تحفظ، معاشی، سیاسی بحرانوں کے حل اور رفاہ عامہ پر بھرپور توجہ مرکوزکی۔ عوامی تحریک کی سیاست کے حوالے سے ایک بات فخر سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی قیادت اس کے جانثار کارکنان اور اس کی سیاست ’’میڈ فار پاکستان‘‘ اور ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ ہے۔ یہ واحد جماعت ہے کہ جو ایک دن کیلئے بھی اقتدار میں نہیں آئی لیکن قومی خدمت کے حوالے سے اس جماعت اور اس کی قیادت کا کنٹری بیوشن قابل ذکر اور قابل تقلید ہے۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی سیاسی فلاسفی اور افکار کے حوالے سے پاکستان کی لوئر مڈل اور مڈل کلاس کی بھرپور ترجمانی کی اور آج 29 سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان عوامی تحریک پاکستان کی پسماندہ اور غریب آبادی کی نمائندہ اور محبوب جماعت ہے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان کی غریب اور مڈل کلاس کی بہتری کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کیں اور ہر موقع پر ان کی آواز بنے۔ عوامی تحریک کو انقلاب کیلئے جدوجہد کرنے والی جماعت کی شہرت اور شناخت حاصل ہے۔ عوامی تحریک کی قیادت کو اور اس کے بے مثال کارکنان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے استحصالی نظام کیخلاف یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کی اور پاکستان کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو باور کروایا کہ یہ نظام اور اس کو تحفظ دینے والے مسلط رہیں گے تو کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اس حوالے سے صرف شعوری مہم ہی نہیں چلائی گئی بلکہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنان نے بے مثال جانی ومالی قربانیاں دیں۔
ہمیں اس بات پر فخر ہے پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اس ظالم نظام کے بارے میں جن خدشات کا اظہار 29 سال سے کر رہی تھی آج وہی باتیں پاکستان کا ہر معتبر ادارہ اور عوامی حلقے بھی کر رہے ہیں۔ 29سالوں پر پھیلا ہوا یہ سفر اپنے اندر بہت سے واقعات، تجربات اور مشاہدات کو سموئے ہوئے ہے لیکن دسمبر 2012ء میں غیرآئینی انتخابی نظام کے خلاف عوامی تحریک کی شروع کی جانے والی عوامی جدوجہد نے عوامی تحریک کے پیغام کو پاکستان کی ہر گلی اور کوچے تک پہنچا دیا۔ دسمبر 2012ء سے ظالم نظام اور غیر آئینی الیکشن کمیشن کے حوالے سے شروع کی جانیوالی جدوجہد نے ہر طبقہ زندگی پر اثرات مرتب کیے۔ دسمبر 2012ء میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صدائے انقلاب نے پاکستان کے سیاسی نظام میں ہلچل پیدا کر دی۔ دسمبر 2012ء میں مینار پاکستان پر لاکھوں پاکستانیوں نے جمع ہو کر ظالم نظام کے خلاف اپنی نفرت اور کراہت کا اعلانیہ اظہار کیا اور پاکستان کے پڑھے لکھے محب وطن سیاسی حلقوں کو وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت کے قیام کا ایک وژن اور فکر دی۔ اس موقع پرپاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نظامِ انتخاب کی اصلاح کیلئے جو مطالبات پیش کیے، کوئی بھی سیاستدان ان کی افادیت سے انکار نہ کر سکا۔ قائد تحریک نے واضح کیا کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخاب ہوئے تو عوام کے حقیقی نمائندے اسمبلیوں میںکبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ دوم: ان کا کہنا تھا کہ آئینی الیکشن کمیشن ہی حقیقی جمہوریت لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ دو ایسے آئینی، سیاسی اور جمہوری مطالبات تھے کہ جن کی اہمیت اور افادیت سے نہ اس وقت کوئی انکار کر سکا اور بعد میں تو ہر ایک نے کہا کہ ’’ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘ کیونکہ اصلاحات کے بغیر 2013ء میں جو انتخابات ہوئے اس میں ایک ایسی جماعت جیت کر آئی جو عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں تھی اور 2013ء کے الیکشن کو آج بھی آر اوز کے الیکشن کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
جنوری 2013ء میں نظام انتخاب کی اصلاح کیلئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد کی طرف تاریخ ساز لانگ مارچ کیا گیا جس میں پڑھے لکھے خاندانوں کے لاکھوں نفوس شریک تھے اور پوری دنیا کی توجہ اس لانگ مارچ پر تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ واحد لانگ مارچ تھا جس کا مقصد کسی کو اقتدار سے گرانا یا اقتدار میں آنا نہیں تھا بلکہ پاکستان کو آئین اور جمہوریت کی پٹری پر چڑھانا تھا۔ جیسا کہ شروع میں یہ لکھا گیا کہ شعور کی بیداری بھی عوامی تحریک کے منشور کا ایک جزو تھی تو اپنے منشور کے اس جزو پر عملی جدوجہد کرتے ہوئے قوم کو ایجوکیٹ کیا گیا کہ حقیقی جمہوریت لانے کیلئے اور اس کے ثمرات سمیٹنے کیلئے نظامِ انتخاب کی اصلاح ناگزیر ہے۔
اسی لانگ مارچ کے موقع پر قوم نے پہلی بار سنا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے اترنے والے نمائندوں کو اسمبلیوں میں آنا چاہیے اور جو امیدوار ان آرٹیکلز پر پورے نہیں اترتے ان کا راستہ کاغذات نامزدگی کے مرحلہ پر ہی روک لیا جانا چاہیے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو ذریعہ نجات سمجھتے تھے اور بالآخر انہی آرٹیکلز نے قوم کی ظالموں، قاتلوں اور کرپٹ عناصر سے جان چھڑوائی۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد ن لیگ کے ذمہ داران نے برملا کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ایجنڈے پر عمل ہورہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی عدلیہ ازخود اس نتیجے پر پہنچی کہ کسی جھوٹے کو مقدس عوامی اور آئینی اداروں میں بیٹھنے کا کوئی آئینی حق نہیں ہے،تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنوں کی بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں عوامی شعور اجاگر ہوا اور ظالم قوتوں سے نجات کے آثار پیدا ہوئے۔
ظالم نظام کی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی اور واقعہ سانحہ ماڈل ٹائون کا ہے۔ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ظالم نظام اور اس کے محافظوں کے خلاف آئین کے دیئے ہوئے احتجاج کے حق کو استعمال کرنے کا اعلان کیا تو اس ظالم نظام کی پروردہ قوتوں نے ماڈل ٹائون میں خون کی ہولی کھیلی۔ 17 جون 2014ء کے دن 100 لوگوں کو گولیاں ماری گئیں جن میں 14 شہید ہوگئے۔ ظالم نظام کے خلاف اس قربانی کو اسی طرح یاد رکھا جائے گا جیسے مزدوروں کے حقوق کے لیے شکاگو کے مزدوروں کی قربانیوں کو یاد رکھا جارہا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے یومِ تاسیس کے تاریخی موقع پر ہم اپنے شہدائ، شہدائے ماڈل ٹائون اور شہدائے انقلاب مارچ اسلام آباد کو ان کی بے مثال قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ واحد قومی وبین الاقوامی رہنما ہیں کہ جنہوں نے اپنے کارکنوں کو صرف امن سکھایا۔ جنوری 2013ء کا تاریخی لانگ مارچ ہو یا 14 اگست کا انقلاب مارچ، تحریک قصاص ہو یا کوئی بھی احتجاجی تحریک، ہر موقع پر کارکنوں کو حکم تھا کہ پر امن رہتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرنے ہیں اور کسی بھی حالت میں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ یہ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تربیت تھی کہ 17 جون 2014ء کے دن جب نہتے کارکنوں پر ہر طرف سے گولیوں کی برسات ہو رہی تھی، لاشیں گر رہی تھیں اس وقت بھی قائد انقلاب کا ایک ہی حکم تھا کہ قانون ہاتھ میں نہیں لینا۔ امن کی یہ تربیت کسی اور جماعت کی قیادت اور کارکنوں کی طرف سے بطورِ مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
آج ایک کرپٹ اور جھوٹے شخص کو جب عدلیہ آئین کے مطابق نااہل قرار دیتی ہے تو وہ ریاست کے خلاف اعلان جنگ پر اتر آتا ہے، معزز ججز کے خلاف الزام تراشی اور ہرزہ سرائی کی کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی جاتی یہاں تک کہ ججز کے گھروں پر حملے بھی کروائے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف کارکنوں کی 14 لاشیں اٹھانے والی قیادت جسے چار سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف نہیں ملتا مگر وہ ایسا ایک جملہ بھی زبان پر نہیں لاتی جس سے آئینی اداروں کے وقار پر حرف آتا ہو۔ الحمد للہ پاکستان عوامی تحریک اپنا سیاسی سفر عزت وآبرو کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عوامی تحریک اور اس کی قیادت کو مٹانے والے آج خود مٹ رہے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک ایک سیاسی، جمہوری پارٹی ہے۔ آئین پاکستان اور الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق اپنا قومی،سیاسی کردار ادا کر رہی ہے۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین وضوابط کے تحت ہر سطح پر پارٹی انتخابات انعقاد پذیر ہوئے۔ محترم قاضی زاہد حسین مرکزی صدر اور خرم نواز گنڈا پور سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ الحمد للہ چاروں صوبوں کی تنظیمات مکمل ہو چکی ہیں اور عوامی تحریک وطن عزیز کی سیاست میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہنمائی میں اپنا تعمیری اور اصلاحی کردار اداکررہی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے عصری ضروریات کے تابع پارٹی منشور بھی مروّجہ قانونی طریقہ کار کے تحت مرتب کر لیا ہے۔ آئندہ عام انتخاب میں حصہ لینے کے لیے بھی پارٹی پر عزم ہے اور اس ضمن میں کارکنان اورعہدیداران سے مشاورت کا عمل جاری ہے۔
یوم تاسیس پر مرکزی قائدین کے پیغامات
- قاضی زاہد حسین (مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک) نے یوم تاسیس کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ:
’’عوامی تحریک روایتی جماعت ہے اور نہ موروثی۔ یہ عوامی تحریک کا ہی اعزاز ہے کہ صوبہ سندھ سے مرکزی صدر کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ عوامی تحریک کسی ایک صوبہ یا خطے کی جماعت نہیں بلکہ ایک قومی جماعت ہے جس میں ہر طبقہ فکر کے پڑھے لکھے افراد اپنا قومی،سیاسی کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر ہمیں فخر ہے کہ جن کی زندگی کا ہر لمحہ دین اسلام اور انسانیت کی خدمت میں صرف ہورہا ہے اور انہوں نے اقتدار میں آئے بغیر آئندہ نسلوں کے لیے وہ کام کردیئے جس کی دوسری نظیر لانا ناممکن ہے۔ میں اس تاریخی موقع پر ملک بھر کے کارکنان سے کہوں گا کہ وہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سیاسی فکر کو عام کرنے کے لیے تنظیم سازی پر توجہ دیں، رکنیت سازی مہم پر توجہ دیں اور عوامی تحریک کو گلی کوچے میں متحرک کریں، عوامی تحریک ہی وہ واحد جماعت ہے جس کی قیادت پاکستان کے مسائل سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ انہیں حل کرنے کی اہلیت سے بھی بہرہ مند ہے‘‘۔
- خرم نواز گنڈا پور (سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک) نے یوم تاسیس کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ:
’’میری خوش قسمتی ہے کہ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت اور سرپرستی میں کام کر رہا ہوں۔ میرے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ میرے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے،پاکستان کی یہ واحد شخصیت ہیں کہ ان کا جتنا کڑا احتساب ہوا، کسی اور کا نہیں ہوا۔ انہوں نے کلمہ حق کو جرأت مندی کے ساتھ ادا کرنے کی ایک نئی مثال قائم کی۔ ان کی جان لینے کے لیے ان کے گھر پر حملہ ہوا، ان کے اہل خانہ کو قتل کرنے کے منصوبے بنے، صرف منصوبے ہی نہیں بنے بلکہ ان پر عمل کرنے کی بھی سرتوڑ کوشش کی گئی لیکن بچانے والی ذات مارنے والوں سے کہیں بڑی اور طاقتور ہے۔ 17 جون کا سانحہ بنیادی طور پر قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری کو ہی راستے سے ہٹانے کی ایک گھنائونی منصوبہ بندی تھی جس میں دشمن نامراد رہا۔ تحریک منہاج القرآن اور ڈاکٹر محمد طاہرا لقادری کی ذات پر وقت کے فرعونوں نے بہتان باندھے، درجنوں جھوٹے مقدمات قائم کئے، بدترین انتقامی کارروائیاں کیں لیکن اس کے باوجود ظالم نظام کی پروردہ قوتیں انہیں کلمہ حق ادا کرنے سے نہ روک سکیں۔ میرا یوم تاسیس پر یہی پیغام ہے کہ عوامی تحریک کا کارکن اسلام کا، پاکستان کا،غریب عوام کا کارکن ہے جسے کوئی باطل قوت نہ ڈرا سکتی ہے،نہ جھکا سکتی ہے۔ تمام کارکنان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اسلامی،قومی اور انسانی خدمت کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں۔ یوم تاسیس پر تمام کارکنان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کر تا ہوں۔‘‘
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2018
تبصرہ