15 مئی خاندان کا عالمی دن
عابدہ قاسم
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 15مئی کو خاندان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میںخاندان کی اہمیت کو اجاگر کرنا، خاندانی زندگی کو مضبوط بنانا اور خاندانی نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ خاندان کا عالمی دن منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو اس کی وجہ ہمیں خاندانی نظام کی دن بدن بگڑتی صورتحال کی نظر آتی ہے جسکی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرنے کے لئے یہ دن منایا جاتا ہے اس کے پیش نظر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ خاندان کہتے کسے ہیں اوراس کا مفہوم کیا ہے؟
خاندان کا مفہوم
خاندان انسان کی پرورش کی سب سے پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نسآء میں ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.
النساء: 1
’’اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش(کی ابتدائ)ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا پھر ا ن دونوںمیں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق)کو پھیلا دیا۔‘‘
گویا انسانی خاندانوں کی ابتداء کا پسِ منظربیان کیا گیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی شانِ تخلیقی سے خاندان بنایایہ سلسلہ جس طرح ماضی میں ہر دور ، ہر وقت اور ہر قسم کے حالات میں جاری رہااسی طرح آج بھی ہے اور آخری انسان کی پیدائش تک جار ی رہے گا یہی قدرتِ خدااوندی اور منشائے ربانی ہے ۔خاندان کی بنیاد مرد و عورت مل کر رکھتے ہیں۔ مغرب اور اسلام کے تصور خاندان میں فرق یہ ہے کہ مغرب میں یہ صرف ما ں ، باپ اور اولاد پر مشتمل ہے جبکہ اسلام میںخاندان کی بنیادی اکائیاں میاں ، بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاںاور دیگر رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
خاندان کی اہمیت
خاندان میں انسان ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اورمشکلات میں ایک دوسرے کے کام آتا ہے۔ مردو عورت دونوں مل کر اولاد کی تربیت کرتے ہیں۔والدین اور بہن بھائیوں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھا جاتا ہے اس طرح اکھٹے رہنے سے آپس میں پیا ر و محبت قا ئم رہتا ہے جب گھر کے افراد ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں تو اس خاندانی نظام سے بچوں کو تنہائی کا احساس نہیں ہوتا اور وہ والدین اور دادا دادی کی سنگت میں رشتوںکی اہمیت کو سمجھنے لگتے ہیں۔
خاندانی نظام میں عورت کی حیثیت
خاندانی نظام میں عورت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ عورت کا دائرہ کار گھر کے اندر اور مرد کا گھر کے باہر ہے۔ عورت کو قدرت نے ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے جنکی بدولت وہ بچوں کی نگہداشت ، نشو و نما اور تعلیم و تربیت کے لیے موزوں ترین ہے۔ عورت نسل انسانی کو پروان چڑھاتی ہے لہذا اس کی معمولی سی غفلت، کوتاہی اور عدم توجہی پوری قوم کو نا قابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر سکتی ہے۔ عورت خاندانی نظام کی بنیاد رکھتی ہے لہٰذا ماں اور بیوی کی حیثیت سے تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنی عزت و سیادت کے حقیقی تخت پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے اس پر کئی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیںجس میں شوہر کے حقوق پورے کرنا ، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور ہر قسم کے مصائب و مشکلات میں اسکا ساتھی بننا ہے۔ بطور ماں اسے اپنی اولاد کی اعلی تربیت کرنا ہوگی تاکہ اسلامی معاشرہ ترقی کی راہوں پہ گامزن ہو ۔جیسے مصائب و مشکلات میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی۔ جب آپ رضی اللہ عنہا کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت آپکے قدموں پہ نچھاور کر دی اور عرض کی ــ’’میرے آقا آپ اس کے مالک ہیں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا‘‘چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ یہی مال بعثت کے بعد نصرتِ اسلام کا سبب بنا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشی فکر سے آزاد ہو کر دعوتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
(طاهرالقادری، سیرت الرسول صلی الله علیه وآله وسلم (1996ء)، ج:3، ص:78)
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آغاز اسلام سے وصال تک اسلام کے لئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بہت کثرت سے ذکر فرماتے اور فرماتے کہ خدیجہ نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی، لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے انحراف کیا تو وہ صدقِ دل سے ایمان لائیں، اپنی دولت خدمت دین کے لئے وقف کر دی، نا مساعد حالات میں وہ جرات و ہمت اور تدبر کے ساتھ مضبوط دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں اور میری ذات پر کیا جانے والا ہر وار اپنی ذات پر سہا، بت پرستوں کے حوصلوں کو پست کیا اور انہیں کوئی بڑی کاروائی کرنے کی جرأت نہ ہونے دی بھلا ان جیسا کون ہو سکتا ہے؟ (القشیری، صحیح مسلم، حدیث :2437)
خاندانی نظام میں مرد کی حیثیت
اسلام میں کفالت یعنی بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ کا ذمہ دار مرد کو ٹہرایا گیا ہے۔قرآن پاک میں ہے
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ.
النساء: 34
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے۔‘‘
گھر کے باہر کی ذمہ داری مرد پر ہے ۔مرد کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ محبت و مودت کا رشتہ رکھے اور بیوی کے ساتھ مل کر اپنی اولاد کو اعلی تعلیم و تربیت دے کسی بھی طرح کی مصائب و مشکلات کے باعث اسے نظر انداز نہ کرے۔
عصرِ حاضر میں خاندانی نظام کی صورتحال
عصرِ حاضر میں خاندانی نظام اپنی مذہبی و روحانی اقدار کو بھلانے کے باعث زوال کا شکار ہو رہا ہے۔مغربی معاشرہ اس حوالے سے تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے شادیوں کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے، بیشتر شادیوں کا انجام طلاق کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ، خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے امریکہ اور سویڈن کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے ان دونوں ممالک میں ستر فیصد کے قریب خاندا ن ٹوٹ چکے ہیں، بچے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہیں، ماں باپ اولاد پر اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں۔ مغرب میں خاندانی نظام کے اس بگاڑ کے اثرات اسلامی معاشرہ پر بھی ہورہے ہیں جس کے نتیجہ میں اب خاندان کی اکائی بکھر کر رہ گئی ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ اسلامی تعلیمات سے دوری
بد قسمتی سے آج اسلامی تعلیمات سے روگردانی نے خاندانی نظام کو زوال کا شکار کر دیا ہے۔خاندان کا ہرفرد اپنے حقوق و فرائض سے پہلو تہی کر رہا ہے۔ صبر، تحمل، برداشت، صلہ رحمی، اخوت و بھائی چارہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ آج غربت، بے روز گاری، معمولی جھگڑوں اور بے راہ روی کا شکار ہو کر اولاد کو قتل کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میںلاہور کے پوش علاقہ میں ایک ماں نے اپنے تین کمسن بچوں کو گلا دبا کر قتل کر دیا اس طرح کے کئی واقعات دن بدن ہمارے معاشرے کا ناسور بنتے جارہے ہیں جبکہ قرآن پاک میں واضح حکم ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ.
بنی اسرائیل: 31
’’اور تم اپنی اولاد کو غربت کے ڈر سے قتل نہ کرو۔‘‘
2۔ مغرب کی اندھی تقلید
خاندانی نظام کے زوال کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آج معاشرہ بالخصوص عورت مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے چند پُرفتن اور لغو نعروں میں بہک گئی ہے۔ ہر کوئی حدود و قیود سے آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہے جہاں کوئی فرائض نہ ہوں یہی وجہ ہے اولاد والدین کی محبت و شفقت سے محروم جبکہ والدین کو اولاد کی طرف سے بے ادبی و عدم برداشت کے رویوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
3۔ معاشرتی بے راہ روی
خاندانی نظام کے بگاڑ کا اہم سبب دن بدن بڑھتی معاشرتی بے راہ روی بھی ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصہ میں میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی ہے وہیں معاشرے کو بے راہ روی کا شکار بھی کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈرامے جہاں ایک طرف خلع، طلاق، حلالہ جیسے فقہی مسائل میں ابہام پیدا کررہے ہیں وہیں دوسری طرف Feminist سوچ کی حامل سماجی تنظیموں کے نعروں پر بننے والے ڈراموں نے عورت کو گھر سے بے زار کردیا ہے۔
غرض بلاشبہ آ ج کے دور میں اکثر مسلمان نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اسکے باوجود مسلمانوں کا خاندانی نظام یورپ کے لیے آج بھی قابل رشک ہے جو اپنی سیکولر سوچ کے باعث آج خاندانی نظام کو تباہ کر بیٹھا ہے۔ آج ہم مادیت پرست دور میں مغر ب کی پیروی کی بجائے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسوہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر عمل پیرا ہو کر خاندانی نظام کو بقاء دے سکتے ہیں۔ مردوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ مبارکہ پر عمل کرنا ہو گا قرآن پاک میں ارشاد ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
الاحزاب: 21
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
خواتین کو اسلامی تعلیمات اور اسوہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو اپنانا ہوگا جبکہ شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت عورت کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر کٹھن موڑ پر ڈھارس بندھائی۔ انسانیت کو بالآخر اسلام کی تعلیمات کی طرف ضرور پلٹنا ہوگا کیونکہ اس میں ہی اسکی بقاء ہے پھر ہر چڑھتا سورج خاندان کی عظمت و برتری کا سورج ہو گا اور خاندان کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے کسی ایک دن منانے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مئی 2018
تبصرہ