سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس: جواد حامد پر چوتھے روز بھی جرح جاری
بیریئر ہٹانے کے نام پر سب سے پہلے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز آئے
پولیس افسران سے دوران گفتگو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ان کا ریموٹ کنٹرول کہیں اور ہے: جواد حامد
لاہور (4 مئی 2018) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے مسلسل چوتھے روز بھی مستغیث جواد حامد پر جرح جاری رہی، جواد حامد نے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹی ایم او کا عملہ اور دیگر انتظامی افسران نہیں ہمارے پاس ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز آئے، بیریئر کے حوالے سے جتنی بھی گفتگو ہوئی ان پولیس افسران سے ہوئی اور یہ افسران جس طرح بیریئر کے معاملے میں جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھے اس سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ آپریشن بیریئر ہٹانے کا نہیں کچھ اور ہی ہے، جواد حامد نے کہا کہ پولیس افسران سے بارہا پوچھا گیا کہ آپ جس حکم کے تحت یہاں آئے ہیں وہ دکھا دیں لیکن وہ کسی اور ہی موڈ میں تھے، انہوں نے کہا کہ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے رانا عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہے اور وہ ان افسران کو حکم دے رہا ہے کہ جلد سے جلد کارروائی شروع کریں، انہوں نے کہا کہ رانا عبدالجبار اور طارق عزیز مسلسل اشتعال انگیزی کرتے رہے، گندی زبان استعمال کرتے رہے، مسلسل ہمارے کارکنوں کو اور قائدین کو بھڑکاتے رہے، غیر مہذب لب و لہجہ اختیار کرتے رہے، پولیس کی بھاری نفری نے عملاً ماڈل ٹاؤن کو باقی دنیا سے کاٹ دیا تھا اور پھر ایک دم ہلا بول دیاگیا، آنسو گیس کی اس قدر وحشیانہ شیلنگ کی گئی کہ ماڈل ٹاؤن میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پولیس افسران کی وحشیانہ سیدھی فائرنگ کے مناظر ویڈیوز میں محفوظ ہیں اور یہ ساری ویڈیوز اے ٹی سی میں جمع کروا دی گئی ہیں۔
دریں اثناء شہدائے ماڈل ٹاؤن کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے اے ٹی سی میں بحث کے دوران عدالت میں دعویٰ کیا کہ پولیس نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جعلی جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع کروائی، جج نے سوال کیا کہ آپ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ جعلی ہے تو اظہر صدیق نے عدالت میں ایک اور رپورٹ دکھائی اور کہا کہ یہ اصلی رپورٹ ہے جو اے ٹی سی میں آئی وہ نقلی ہے میں نے یہ رپورٹ اپنے میڈیا کے ذرائع سے حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ فیئر ٹرائل کیلئے کیس سے متعلقہ جملہ دستاویزات مقتول پارٹی کو فراہم کرنا آئینی، قانونی تقاضا ہے۔ انہوں نے اے ٹی سی کے جج سے کہا کہ میں لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے تحت ٹرائل کورٹ میں آیا ہوں کیونکہ سرکاری وکلاء کا موقف ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹس ٹرائل کورٹ میں ہے۔ اے ٹی سی میں رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، لہراسب گوندل ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، سردار غضنفر ایڈووکیٹ، یاسر صادق ایڈووکیٹ موجود تھے۔
تبصرہ