پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹ کو تبدیل کیا: وکلاء عوامی تحریک
اے ٹی سی میں جعلی رپورٹ جمع کروائی گئی، اصل رپورٹ فراہم کی جائے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بحث کیلئے آج سرکاری وکلاء کو طلب کر لیا
پولیس ملزمان کے وکلاء جرح کی بجائے ہراساں کررہے ہیں، خاموش نہیں رہیں گے: نعیم الدین چودھری
لاہور (3 مئی 2018) شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں اے ٹی سی جج سے درخواست کی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پنجاب حکومت نے اصل رپورٹ نہ ورثاء کو فراہم کی اور نہ ہی عدالت میں انہوں نے کہا اے ٹی سی میں بھی جعلی رپورٹ جمع کروائی گئی جس کا سب سے بڑا ثبوت اس رپورٹ کا بغیر دستخط کے ہونا اور فوٹو کاپی کی شکل میں عدالت میں جمع کروایا جانا ہے لہٰذا عدالت اس بات کو یقینی بنائے کہ پنجاب حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ ہمیں فراہم کرے، اے ٹی سی نے سٹیٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 4 مئی کو بحث کیلئے طلب کیا ہے۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ پنجاب حکومت جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ دار ہے اور سینئر پولیس حکام اس سانحہ میں براہ راست ملوث ہیں جنہیں اے ٹی سی نے طلب بھی کر رکھا ہے اسی لیے پنجاب حکومت انصاف کے راستے کی رکاوٹ بنی ہوئی ہے جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ فراہم نہ کرنا اس کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیئر ٹرائل کیلئے کیس سے متعلقہ اصل دستاویزات جو حکومت کے پاس ہیں ان کا مقتولین کے ورثاء کو فراہم کرنا قانونی تقاضا ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے پراسیکیوٹر کے رویے پر بھی شدید تنقید کی ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر کی ذمہ داری مقتولین اور مظلوموں کو انصاف دلوانے کے حوالے سے عدالت کی معاونت کرنا ہے مگر یہاں پر پراسیکیوٹر قاتل پارٹی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، ان کی گرفت ہونی چاہیے۔
انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پولیس ملزمان کی طرف سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکیل نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ کے حوالے سے ناروا رویہ اختیار کیا گیا اور انہیں کمرہ عدالت سے دور کرنے کیلئے آوازے کسے گئے جس پر نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ اور دیگر وکلاء نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ملزمان کے وکلاء کا رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ قانون کے مطابق جرح کرنے کی بجائے کمرہ عدالت میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور وکلاء کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ہماری بڑی ادب سے گزارش ہے کہ وہ اس کا نوٹس لے۔
تبصرہ