سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس، 18 اپریل کو ہونے والی قانونی کارروائی کے حوالے سے اہم نکات
لاہور (18 اپریل 2018)
(1) سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء تمام رٹ پٹیشنز کو نمٹانے کیلئے فل بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے یہ بنچ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں قائم کیا گیا ہے، بنچ کے ممبرز میں جسٹس عالیہ نیلم خان اور جسٹس سردار احمد نعیم شامل ہیں۔
(2) انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں جواد حامد کی مسلسل تین روز شہادت قلمبند کی گئی جواد حامد کا بیان 16 اپریل 2018 ء کو شروع ہوا اور مورخہ 18 اپریل 2018 ء کو مکمل ہو گیا۔
(3) سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار ڈی آئی جی رانا عبدالجبار جو ایف آئی آر 510 کے گواہ تھے اے ٹی سی میں بیان ریکارڈ کروانے نہیں آئے، اے ٹی سی جج نے غیر حاضری پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے۔(4) 19 اپریل سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت رٹ پٹیشنز پر سماعت کا آغاز فل بنچ کرے گا، اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے تین اہم رٹ پٹیشنز التواء کا شکار ہیں۔ (1) انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی، چودھری نثار علی خان، سید توقیر حسین شاہ، میجر (ر) اعظم سلیمان، راشد محمود لنگڑیال سمیت 12 ملزمان کو طلب نہیں کیا جن کی طلبی کیلئے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے ایک سال سے رٹ پٹیشن زیر سماعت تھی۔ (2) ایک رٹ پٹیشن جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ سے لف ڈاکومنٹس اور پنجاب حکومت کی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ کی عدم فراہمی سے متعلق ہے۔ (3) تیسری رٹ پٹیشن سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے متعلق ہے جنہوں نے اپنی طلبی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کررکھا ہے جس کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔ ان تینوں رٹ پٹیشنز پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم پر ایک ہفتے کے اندر فیصلہ سنایا جائیگا۔
(5) چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت لاہور سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کررہی ہے، چیف جسٹس کا حکم ہے کہ اتوار کی چھٹی کے بغیر کوئی چھٹی نہ کی جائے اور سپیڈی جسٹس کے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس ضمن میں استغاثہ کیس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پولیس کی درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 510 پر ٹرائل جاری ہے۔
(6) استغاثہ کیس میں پولیس کے 116 ملزمان طلب کیے گئے ہیں جن میں سابق آئی جی مشتاق سکھیرا، 8 ایس پی، 16 ڈی ایس پی، ایس ایچ اوز، اے ایس آئی اور درجنوں کانسٹیبلز شامل ہیں۔
(7) مستغیث جواد حامد نے مسلسل تین روز تک جاری رہنے والے بیان میں 10 گھنٹوں پر محیط اور ایک مربع کلومیٹر کے ایریا میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام پولیس افسران اور اہلکاروں کے جرم کی کہانی تفصیل کے ساتھ بیان کی، انہوں نے اپنے بیان میں 10 مقتولین کو قتل کرنے والے پولیس افسران کے نام انسداد دہشتگردی عدالت کو بتائے اور جن افسران اور اہلکاروں کی فائرنگ سے درجنوں کارکنان زخمی ہوئے ان کے بھی نام پتے اپنے بیان میں قلمبند کروائے۔
( 8) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے مزید سماعت 19 اپریل کو انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں بھی ہو گی اور لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ بھی زیر التواء رٹ پٹیشنز کی سماعت کرے گا۔
تبصرہ