زینب قتل کیس کا فیصلہ خوش آئند، سزا پر عمل بھی بلا تاخیر ہونا چاہیے: ڈاکٹر طاہرالقادری
فیصلہ سے زینب کے والدین کو اطمینان ملا، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء
بھی اسی اطمینان کے منتظر ہیں؟
فیصلے بروقت نہ آئیں تو لاقانونیت، انتہا پسندی، تشدد اور دہشتگردی جنم لیتی ہے، فیصلہ
پر تبصرہ
لاہور (17 فروری 2018) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ زینب قتل کیس کافیصلہ خوش آئند ہے، سزا پر عمل بھی بلاتاخیر ہونا چاہیے، جب سنگین جرائم کے ملزمان کو بروقت سزائیں نہیں ملتیں تو لاقانونیت، انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی فروغ پاتی ہے، انہوں نے کہا کہ معصوم زینب کے قتل پر پاکستان کا ہر شہری انصاف کیلئے اٹھا جس پر سب سے پہلے میڈیا متحرک ہوا، عدلیہ نے نوٹس لیا، آرمی چیف نے نوٹس لیا اور پھر آخر میں پنجاب حکومت حرکت میں آئی تب جا کر درندہ صفت عمران علی گرفت میں آئی۔ قصور میں زینب کے قتل سے قبل بھی ایسی ہی وارداتیں ہوئی جسے میڈیا نے نہیں اٹھایا تو کوئی ذمہ دار ٹس سے مس نہ ہوا۔
انہوں نے زینب قتل کیس کے فیصلہ پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر بدستور قائم ہے کہ اگر پہلی بچی کے اغواء اور قتل پر پولیس اور پنجاب حکومت حرکت میں آتی تو مزید بچیاں اس درندگی سے بچ سکتی تھیں۔ پولیس نے تو قصور کے شہریوں کی آواز دبانے کیلئے احتجاج پرانہیں گولیاں ماریں اور مزید لاشیں گرائیں۔ اگر میڈیا مظلوموں کی آواز نہ بنتا تو زینب قتل کیس بھی سردخانے کی نظر ہو جاتا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ قصور میں مسلسل واقعات پیش آرہے ہیں، بداخلاقی کے یہ سنگین واقعات کسی طاقتور کی سرپرستی کے بغیر نہیں ہوسکتے، اس حوالے سے حکومت ابھی بھی کچھ چھپا رہی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ درندہ صفت عمران علی کی سزائے موت سے زینب کے والدین کو اطمینان حاصل ہوا، ایسے ہی اطمینان کے منتظر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء بھی ہیں کہ جن کے پیاروں کو دن دہاڑے شریف برادران کے ایماء پر پولیس نے قتل کیا اور پونے چار سال گزر جانے کے بعد بھی قتل و غارت گری کے ملزمان کو سزا نہیں مل سکی حالانکہ عدالتی انکوائری میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے چہروں سے نقاب ہٹ چکا ہے مگر ملزمان کی گرفتاری تو دور کی بات اس کی غیر جانبدار تفتیش تک نہیں ہونے دی جارہی، جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد پہلا حکم ازسرنوغیر جانبدار تحقیق کا آنا چاہیے تھا جو نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست گزار ہیں کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بھی نوٹس لیں۔
تبصرہ