اس بار مظلوم انصاف کے لیے سڑکوں پر آئے تو قصاص لیے بغیر گھروں کو نہیں لوٹیں گے: ڈاکٹر طاہرالقادری
نواز، شہباز میں کوئی فرق نہیں، دونوں جھوٹے، قاتل اور کرپٹ ہیں:ڈاکٹر طاہر
القادری
سرکاری وسائل انصاف دینے کی بجائے قاتلوں کو بچانے پر خرچ ہورہے ہیں، وکلاء سے
گفتگو
قاتل برادران اپنے وکلاء کو عدالت سے تعاون نہ کرنے کی فیس دیتے ہیں، سربراہ عوامی
تحریک
باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں قاتلوں کے نام، پتے درج ہیں، ورثاء کو انصاف دیا جائے
لاہور (18 اکتوبر 2017) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عوامی تحریک کے وکلاء رہنماؤں سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شہباز میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں جھوٹے، قاتل، کرپٹ اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ اس لیے پبلک نہیں ہونے دی جارہی کیونکہ رپورٹ میں قاتلوں کے نام اور پتے درج ہیں۔ حکومتی اپیل میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سے وعدہ کیا گیا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہو رہا، قاتل برادران اپنے وکلاء کو عدالت سے تعاون نہ کرنے کی فیس دیتے ہیں۔ پنجاب کے سرکاری وسائل مظلوموں کو انصاف دینے کی بجائے قاتلوں کو بچانے پر خرچ ہورہے ہیں، طاقتور کے ظلم کا شکار مظلوموں کو انصاف دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے مگر موجودہ نام نہاد جمہوری حکمران انصاف کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ اس بار مظلوم انصاف کے لیے سڑکوں پر آئے تو قصاص لیے بغیر گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔
سربراہ عوامی تحریک نے وکلاء رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کے ضمن میں سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف حکومتی اپیل پر فیصلے کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا کہا گیا تھا مگر حکومتی وکلاء حیلوں ہتھکنڈوں سے لمبی لمبی تاریخیں لے کر روایتی تاخیر ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں، عدالت قاتلوں کو کسی قسم کا ریلیف نہ دے، مظلوموں اور مقتولوں کی بات سنی جائے۔ انصاف میں تاخیر کے باعث کارکنوں میں اضطراب اور اشتعال بڑھ رہا ہے ہم نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا، انصاف کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا ہے جبکہ دوسری طرف قاتل حکمرانوں نے ہمیشہ قانون ہاتھ میں لیا اور انصاف کا قتل عام کیا، اب بھی وہ قدم قدم پر عدالت اور اس کے فیصلوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، حکمرانوں کے اس فاشسٹ رویے کے باعث لاقانونیت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ملکی اداروں کو اس پر سنجیدہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ فیصلوں میں جتنی تاخیر ہو گی نقصان اتنا زیادہ ہو گا۔
تبصرہ