سانحہ ماڈل ٹاؤن: ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی عبدالرحیم شیرازی اشتہاری قرار
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے حاضر نہ ہونے پر پولیس افسران کو اشتہاری قرار دیا
موجودہ آئی جی پنجاب قاتل پولیس افسران کی عدالت میں حاضری یقینی بنائیں :جواد حامد
مزید سماعت 9 ستمبر کو ہو گی، عدالت میں رائے بشیر احمد، نعیم الدین چودھری، شکیل ممکا پیش ہوئے
موجودہ آئی جی پنجاب کو کالی بھیڑوں کو عدالت کے حوالے کرنے میں قانون کی مدد کرنی چاہیے، رہنما
لاہور (28 اگست 2017) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے حاضر نہ ہونے پر ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی عبدالرحیم شیرازی کو اشتہاری قرار دے دیا ہے اور اخبارات میں اشتہار دینے کی ہدایت جاری کی ہے۔ 28 اگست کو سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے اے ٹی سی میں سماعت ہوئی۔ عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، یاسر ایڈووکیٹ اے ٹی سی میں پیش ہوئے، اے ٹی سی جج نے غیر حاضری پر مطلوب پولیس افسران کو اشتہاری قرار دیا اور بقیہ غیر حاضر اہلکاروں کے پتہ جات طلب کر لیے تاکہ ان سے طلبی کی تعمیل کروائی جا سکے۔
اس موقع پر عوامی تحریک کے وکیل رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ درست پتہ جات کیلئے آئی جی آفس کو معزز عدالت خط لکھے ساری تفصیلات سامنے آجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ مدعی ابتدائی پتہ فراہم کرے گا بعدازاں اگر کوئی سرکاری اہلکار ٹرانسفر ہو جائے تو وہ یقیناً محکمہ کے علم میں ہوتا ہے، محکمہ سے معلومات لی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس والے ہمارے قاتل ہیں ہمیں وہ اپنے تازہ ترین تبدیل شدہ پتہ جات کیوں فراہم کریں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات باعث حیرت ہے کہ جس ملزم پولیس والے کے ہم نے ایڈریس فراہم کیے انہیں غلط قرار دیا جاتا ہے اور جب وہی پولیس والا بطور گواہ ہمارے خلاف آتا ہے تو وہی پتہ درست ہوتا ہے۔
سماعت کے بعد عوامی تحریک کے رہنماؤں نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، جواد حامد، نوراللہ صدیقی اور یاسر ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اہم حکم آیا ہے، 14 بے گناہوں کے قتل کیس میں ڈی آئی جی اور ایس پی سطح کے افسر کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے، سابق آئی جی مشتاق سکھیرا سٹے آرڈر پر ہے، اشتہاری قرار دیے جانے والا حکم بذات خود پولیس ڈیپارٹمنٹ اور ان کے ذمہ داران کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ جس فورس کے سینئر عہدیدار اشتہاری قرار پائیں، عدالت اور قانون کا احترام نہ کریں اس فورس کا کیا ڈسپلن اور امیج ہو سکتا ہے اور ایسی پولیس دیگر اشتہاریوں کو کیسے کٹہرے میں لا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 14 بے گناہوں کے قتل کا کیس ہے، موجودہ آئی جی پنجاب کو کالی بھیڑوں کو عدالت کے حوالے کر کے اپنے ڈیپارٹمنٹ پر لگے خون کے دھبوں کو صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس ملزمان کی حاضری یقینی بنانے کیلئے عدالت کی مدد کرنی چاہیے۔
جواد حامد نے بتایا کہ 17 جون 2014ء کے دن رانا عبدالجبار ڈی آئی جی آپریشنز کی حیثیت سے پورے سانحہ کی مانیٹرنگ کررہے تھے اور ایس پی عبدالرحیم شیرازی نے سربراہ عوامی تحریک کے گھر کے مرکزی گیٹ پر دو خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ پر حملہ کیا، انہیں زدوکوب کیا اور دیگر ساتھیوں سے مل کر سرکاری اسلحہ سے فائرنگ کر کے انہیں شہید کیا، یہ فوٹیج میڈیا پر دستیاب ہے۔
نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے اصل ملزم شریف برادران، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور دیگر وزراء ہیں جن کی طلبی کیلئے ہم نے ہائیکورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔
تبصرہ