عوامی تحریک نے پولیٹیکل آرڈر اور انتخابی قواعد و ضوابط پورے کیے: ترجمان
الیکشن کمیشن یکطرفہ کارروائی کر رہا ہے، پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کروا چکے
ن لیگ اشرافیہ کی لمیٹیڈ کمپنی ہے جس نے 35 سال میں اربوں ڈالر کمائے، فیاض وڑائچ
نواز لیگ کو الیکشن کمشن کی بجائے سیکیورٹی ایکسچینج کمشن میں رجسٹرڈ ہونا چاہیے
لاہور
(18 اگست 2017) پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان نے کہا ہے کہ جس جماعت کا سربراہ سپریم
کورٹ سے متفقہ نااہل قرار پایا اس کی جماعت تو اہل ہے مگر قانونی تقاضے پورے کرنے والی
ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک انتخابی قواعد پر پورا نہیں اترتی، الیکشن کمیشن
یکطرفہ کارروائی نہ کرے۔ پارٹی آئین کے مطابق انٹراپارٹی الیکشن کروا کر جملہ دستاویزی
ریکارڈ الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیا اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے ہر اعتراض کا جواب
دیا، ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات 30 اکتوبر 2016 کو ہوئے اسی دن جملہ ریکارڈ الیکشن
کمشن کو ارسال کر دیا تھا۔ 2 بار پارٹی کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور خود الیکشن
کمشن گئے مگر یہ بات نا قابل فہم ہے کہ اعتراضات کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ ترجمان نے کہا
کہ ایک اعتراض دور کرتے ہیں تو 4 نئے لگا دیئے جاتے ہیں، ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
ہمیں تنگ کیا جارہا ہے، ہم نے الیکشن کمیشن کو متعدد بار درخواست کی کہ ہمیں ایک ہی
دفعہ بتا دیا جائے انہیں کس کس سوال کا جواب درکار ہے، عوامی تحریک نے ہمیشہ پولیٹیکل
پارٹی آرڈر 2002ء اور الیکشن کمیشن قواعد و ضوابط اور ضابطہ اخلاق کی پابندی کی ہے،
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن سے رابطہ کر رہے ہیں ہر اعتراض کا جواب دیں گے۔
دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک جنوبی پنجاب کے صدر فیاض وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ شریف خاندان کی ایک لمیٹیڈ کمپنی ہے، اتفاق فاؤنڈری کو بند کر کے ن لیگ کو بطور کمپنی قائم کیا گیا، جس نے 35 سال میں اربوں ڈالر کمائے، ن لیگ کے 2 ڈائریکٹروں نے ایک روپیہ انویسٹ کیے بغیر دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اس کمپنی کے ڈائریکٹروں کا سرمایہ پاناما سے لے کر لندن، نیوزی لینڈ، مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے عہدیدار اس کمپنی کے بغیر تنخواہ کے ڈائریکٹر ہیں جنہیں حصہ بقدر جثہ ملتا ہے، ان عہدیدار ڈائریکٹروں کی آمدن کا بڑا ذریعہ ترقیاتی بجٹ میں سے نکلتا ہے۔ فیاض وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ کو الیکشن کمشن کی بجائے سیکیورٹی ایکسچینج کمشن میں رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ کا جنوبی پنجاب میں وہی حال ہو گا جو 2013 کے الیکشن میں سندھ اور کے پی کے میں ہوا۔
تبصرہ