عوامی تحریک پنجاب کا مہنگائی اور جعلی اشیائے خوردونوش کی فروخت پر حقائق نامہ
لاکھوں لٹر جعلی دودھ اور سینکڑوں من مردہ گوشت کی سپلائی بند نہ ہو سکی
حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں دودھ 25 روپے، بیف 100، مٹن 110 روپے کلو مہنگا ہوا
ایک سال میں یوٹیلٹیز چارجز 5 فیصد، ہیلتھ چارجز 15 فیصدبڑھے، قوت خرید میں کمی آئی
پھل سبزیاں 30 فیصد مہنگی ہوئیں، 52 فیصد شہری خوراک کی کمی کا شکار، 4 کروڑ بچے شامل ہیں
جعلی خوراک کے استعمال کے باعث ہیپاٹائٹس، امراض قلب ومعدہ وباء کی شکل اختیار کر گئے ہیں
جعلی دودھ بنانے والوں کے ساتھ بارودی جیکٹس بنانے والوں جیسا سلوک ہونا چاہیے
رہی سہی کسر جعلی دوائیوں اور سٹنٹ نے نکال دی : بشارت جسپال، فیاض وڑائچ، بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق
لاہور (3 مارچ 2017) پاکستان عوامی تحریک پنجاب نے مہنگائی میں اضافہ اور جعلی اشیائے خوردونوش کی خرید و فروخت پر حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں لٹر جعلی دودھ اور سینکڑوں من مردہ گوشت کی سپلائی بند کروانے میں حکومت اور اس کے ذیلی ادارے مکمل طور پر ناکام اور بے بس ہو چکے ہیں اور جعلی خوراک کی روک تھام کیلئے کارروائی چند ہزار لٹر دودھ ضائع کرنے کی کاغذی کارروائیوں تک محدود ہو چکی ہے۔ ایک سال میں یوٹیلٹیز چارجز میں 5 فیصد، ہیلتھ چارجز میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ مہنگی خوراک کے باعث 52 فیصد شہری غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جن میں 4 کروڑ بچے شامل ہیں۔ حقائق نامہ سنٹرل پنجاب کے صدر بشارت جسپال، جنوبی پنجاب کے صدر فیاض وڑائچ اور شمالی پنجاب کے صدر بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق کی طرف سے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ ایک خصوصی اجلاس میں جاری کیا گیا۔
رہنماؤں نے حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کی بجائے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کر کے بڑھارہی ہے۔ ادارہ شماریات نے بھی اپنے اعداد و شمار میں مہنگائی میں اضافہ کی تصدیق کی ہے۔ جس کی وجہ سے غریب آدمی جو پہلے ہی بمشکل جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہے پر خوراک کی خریداری کی مد میں اضافی بوجھ پڑا۔ حقائق نامہ کے مطابق شریف حکومت کے حالیہ اقتدار کے ساڑھے 3 سالوں میں دودھ 25 روپے کلو، دہی 10 روپے کلو، بڑا گوشت 100 روپے کلو، مٹن 110 روپے کلو اور انڈے، ٹماٹر، دالوں، سبزیوں کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اشیائے خورونوش کی کوالٹی کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت اور اس کے ذیلی ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں۔ معمولی جرمانوں اور اخباری خبروں کے سہارے کارکردگی دکھائی جاہی ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ صرف لاہور ڈویژن میں روزانہ 43 لاکھ لیٹر دودھ فروخت ہوتا ہے۔ لائیو سٹاک، فوڈ ڈیپارٹمنٹ، محکمہ زراعت اور ضلعی حکومتو ں کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ ریجن میں دودھ کی مجموعی پیداوار 30 لاکھ لیٹر کے لگ بھگ ہے 13 لاکھ لیٹر جعلی دودھ کہاں سے پروڈیوس ہورہا ہے اس ضمن میں ادارے خاموش ہیں اور یہ سفید زہر آئندہ نسلوں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جعلی دودھ بنانا دہشتگردی جیسا ہی عمل ہے۔ جعلی دودھ بنانے والوں کے ساتھ بارودی جیکٹس بنانے والوں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ رہنماؤں نے کہا کہ ناقص غذا اور جعلی دودھ کے استعمال کے باعث ہیپاٹائٹس، امراض قلب، امراض معدہ وباء کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ رہی سہی کسر جعلی سٹنٹ اور جعلی دوائیاں نکال رہی ہیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ دنیا کے کسی مہذب جمہوری ملک میں جعلی دودھ، ناقص غذا اور مردہ گوشت کی خرید و فروخت اور استعمال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جبکہ کرپٹ نااہل اور ویژن سے محروم حکمرانوں نے پاکستان کو ایک جنگل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے۔ رہنماؤں نے اپنے حقائق نامہ میں کہا کہ ساڑھے تین سال میں پنجاب اسمبلی میں جعلی خوراک اور جعلی دودھ پر کوئی ایک Debate نہیں رکھا گیا جس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور صحت عامہ کے حوالے سے سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔
تبصرہ