عوامی تحریک کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے 27 جنوری کو احتجاجی مظاہرے کا اعلان
ڈاکٹر طاہرالقادری خطاب اور آئندہ کا لائحہ عمل دینگے، عوامی تحریک کے رہنماؤں کی
پریس کانفرنس
اے ٹی سی میں ملزمان کی طلبی کیلئے جو بھی قانونی تقاضے تھے پورے کر دئیے، خرم نواز
گنڈاپور
سانحہ میں 7 ایس پی، 17 یس ایچ او، ایک ڈی آئی جی ملوث تھا، چالان ایک ایس ایچ او ر
کانسٹیبل ہوا
اے ٹی سی میں 10 پوسٹ مارٹم رپورٹس اور 61 میڈیکل لیگل پیش کیے، 56 چشم دید گواہوں
نے بیان دئیے
لاہور (23 جنوری 2017) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 27 جنوری کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف اور جسٹس علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کیلئے ایوان اقبال کے سامنے مظاہرہ کریں گے۔ مظاہرے سے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری خطاب اور آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پہلی سماعت 24 جنوری 2015 ء کو ہوئی اور آج 24 جنوری 2017 ء کو دو سال پورے ہو چکے مگر شہداء کے ورثاء کو انصاف دلوانے کے حوالے سے ہم جہاں 17 جون 2014 ء کے دن کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ بے گناہوں کو شہید کروانے والے طاقتور ملزمان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہر ادارہ ڈر رہا ہے، تاہم شریف برادران پاناما لیکس پر قانون اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نہیں کیونکہ قتل و غارت گری کا ایک ایک لمحہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہے۔ پریس کانفرنس میں مستغیث جواد حامد، سیکرٹری کوآرڈینیشن ساجد محمود بھٹی، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ اور امیر لاہور حافظ غلا فرید بھی موجود تھے۔
خرم نواز گنڈاپور نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون 2014 ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں 7 ایس پی، 17 ایس ایچ او، ایک ڈی آئی جی موقع پر موجود تھا مگر ہماری ایف آئی آر نمبر 696 میں صرف ایک ایس ایچ او اور ایک کانسٹیبل کو چالان کیا گیا۔ بکروں کی قربانی سے شریف برادران کی جان نہیں چھوٹے گی ہم بکروں کی ماں کی کا محاسبہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے استغاثہ میں اب تک 56 چشم دید زخمی و دیگر گواہان کے بیانات قلمبند کروائے۔ 61 زخمیوں کے میڈیکولیگل سرٹیفکیٹس جمع کروائے۔ 10 پوسٹ مارٹم رپورٹس جمع کروائیں۔ ملزمان کی طلبی کیلئے جو بھی قانونی عدالتی تقاضے تھے وہ پورے کر دئیے۔ آڈیو ویڈیو ثبوت بھی عدالت میں پیش کر دئیے۔ ہمارے بڑے ملزمان میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، چودھری نثار، پرویز رشید، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی آئی جی رانا عبدالجبار بطور خاص شامل ہیں انہیں طلب کیا جائے۔
خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی وہ پریس کانفرنس بھی عدالت میں پیش کر دی ہے جس میں انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر جسٹس علی باقر نجفی نے مجھے ذمہ دار ٹھہرایا تو میں استعفیٰ دے کر قانون اور عوام کی عدالت کا سامنا کروں گا۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ پولیس اگر بیریئر ہٹانے آئی تھی تو پھر سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے آس پاس چھتوں پر مورچے کیوں لگائے گئے اور وہاں سے ٹارگٹ کر کے فائرنگ کیوں کی گئی؟ پہلی شہادت سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے پر ہوئی وہاں پر کون سے بیریئر لگے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ بیریئر ہائیکورٹ کے حکم پر لگے تھے سانحہ ماڈل ٹاؤن توہین انسانیت کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کا بھی کیس ہے۔ جس پر آج تک کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ میں ملوث مرکزی ملزمان جن میں وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ بھی شامل ہیں انہیں ترقی دے کر بیرون ملک فرار کروا دیا گیا۔ مفرور پولیس افسران ہم سے رابطے کررہے ہیں کہ معافی کے بدلے وہ حقائق بتانے کے لیے تیارہیں تاہم ہمیں تحفظ کی گارنٹی کون دے گا؟ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ہماری ایف آئی آر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے درج کروائی اس کے لیے ہم نے رابطہ نہیں کیا تھا بلکہ وزیراعظم کی خواہش پر انہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور انصاف دلوانے کا وعدہ بھی کیاجسے انہوں نے پورا نہیں کیا۔ موجودہ آرمی چیف دھرنے کے ایام میں کور کمانڈر پنڈی تھے ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ سابق آرمی چیف نے دھرنے کے دوران کیا کردار ادا کیا تھا؟۔ ہم کسی سے رابطہ نہیں کریں گے تاہم اگر کوئی بڑا سمجھتا ہے کہ انصاف ہونا چاہیے تو اسے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
تبصرہ