حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی
عین الحق بغدادی
ن لیگ کو عنان حکومت سنبھالے ساڑھے تین سال ہو گئے مگر اس پورے عرصہ میں حکومت کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے موقف کو بھرپور انداز سے پیش کرنے، مملکت پاکستان پر اٹھنے والے اعتراضات کا رد کرنے اور بین الاقوامی برادری سے دو طرفہ اور برابری کی سطح پر معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے کوئی اہل و قابل فرد دستیاب نہ ہو سکا۔ پوری خارجہ پالیسی وزیراعظم، ان کے خاندان، دو بزرگ ترین مشیران طارق فاطمی اور سرتاج عزیز کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ یہ جس طرح چاہیں، جو چاہیں کریں، بشمول پارلیمنٹ اور مقتدر ادارے کسی کو ان سے پوچھنے اور مواخذہ کرنے کی جرأت تک نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم ایشو مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے نہتے عوام پر کیا جانے والا ظلم و ستم، بزور طاقت آزادی کے حق میں اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش اور کنٹرول لائن پر آئے روز نہتے عوام کو خون میں نہلانا ہے۔ دسرا اہم مسئلہ دہشت گردی ہے۔ دنیا میں دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ افواج پاکستان اس ناسور سے نمٹنے کیلئے عرصہ دراز سے مصروف عمل ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے جس کا خمیازہ پاکستان کا عام آدمی اور بچہ بچہ بھگت رہا ہے مگر اتنی قربانیاں دینے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر پاکستان دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے ملک کے طور پر ہی جانا جاتا ہے۔
پاکستان کے چہرے سے اس بدنما داغ کو مٹانے کی آئینی و قانونی ذمہ داری وزارت خارجہ کی ہے کہ وہ اپنی سفارت کاری کے ذریعہ دنیا کو باور کرائے کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کو کتنا نقصان ہورہا ہے اور دنیا کے امن و سکون کیلئے ہم جان و مال کی کتنی قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کے اس عمل کو دنیا میں سراہا جانا چاہیے تھا جبکہ اس وقت ہماری پوزیشن بالکل مختلف ہے۔ہم پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے میں ایک اہم کردار کے طور پر متعارف کرانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعہ این ایس جی گروپ (نیو کلیئر سپلائر گروپ) میں شمولیت کیلئے امریکہ کی حمایت سے راستہ ہموار کر لیا اور اس گروپ میں شمولیت کیلئے درخواست بھی جمع کروا دی مگر چین کی بروقت مداخلت سے بھارت نیو کلیئر سپلائر گروپ کی ممبر شپ لینے میں ناکام رہا۔ کچھ پاکستانی حلقے اس کا کریڈٹ حکومت کی خارجہ پالیسی کو دیتے ہیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ حکومتی خارجہ پالیسی کا اس میں کوئی کردار نہیں البتہ حکومت وقت کی کمزور خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے کچھ غیر مرئی قوتوں نے چین سے رابطہ کیا اور اس کے ذریعے دبائو ڈلوا کر بھارت کی ممبر شپ کو رکوایا اور ساتھ ہی پاکستان کی ممبر شپ کی درخواست بھی جمع کروا دی۔ بین الاقوامی سطح پر یہ اقدام حکومتی خارجہ پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ کامیابی چین کے مرہون منت ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان بارے جارحانہ پالیسی اپناتے ہوئے اپنے ملک کی سلامتی اور اپنے مؤقف کو ببانگ دہل بیان کررہا ہے مگر پاکستان کی سلامتی کو تحفظ دینے کے ذمہ دار پاکستان کے وزیر اعظم کا رویہ اس حوالے سے مجرمانہ غفلت پر مبنی ہے۔کلبھوشن کا معاملہ ہو،کوئٹہ سول ہسپتال دہشتگردی ہو،کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ ہو،پاکستان کا پانی بند کرنے کے بیانات ہوں یا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، ہمارے وزیر اعظم خاموش ہیں۔
اس وقت دنیا میں کشمیریوں کا واحد وکیل پاکستان ہے مگر حکومت وقت کی خارجہ پالیسی کی حالت یہ ہے کہ ہم کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا میں اجاگر کرنے میں ناکام رہے۔یہی نہیں بلکہ پاکستان ـ’’اوفا‘‘ مذکرات میں مسئلہ کشمیر کے بغیر دیگر ایشوز پر بات چیت کے بھارتی مطالبے کو تسلیم کر کے اپنی بے بسی ظاہر کر چکا ہے۔ کئی ماہ سے وادی کشمیر میں کرفیو کا سماں ہے اور چند ماہ میں سینکڑوں افراد شہید اور تقریباً پچیس ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کا یہ حال ہے کہ جب وہ آزادی کے مطالبے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو پاکستان کا جھنڈا تھامے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کے عوض اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر واپس گھر جاتے ہیں۔کشمیری اپنا مضبوط مقدمہ کمزور وکیل کی وجہ سے اجاگر کرنے سے قاصر ہیں۔
اس کے مقابلے میں بلوچستان، کراچی اور پاکستان کے دیگر حصوں میں ہندوستان کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ بلوچستان سے انڈیا کا ایک حاضر سروس آفیسر جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا اور اس کی گرفتاری کے بعد ان کا پورا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا مگر اتنے ٹھوس اور واضح ثبوت ہونے کے باوجود پاکستان اپنا کیس نہ لڑ سکا اور بین الاقوامی سطح پر دشمن کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہا۔ نہ صرف ناکام رہا بلکہ بھارت الٹا پاکستان پر بین الاقوامی دبائو ڈلوانے میں کامیاب ہو گیا کہ پاکستان ان دہشت گردوں کو انڈیا کے حوالے کرے جنہوں نے آزادی کشمیر میں کشمیریوں کی مدد کی تھی۔
سارک سربراہ کانفرنس کا اجلاس پاکستان میں ہونا تھا۔بھارت نے اس کانفرنس کے پاکستان میں انعقاد پذیر ہونے کی صورت میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اگر حکومت کی خارجہ پالیسی اتنی مضبوط ہوتی تو باقی رکن ممالک کو ساتھ ملا کر کانفرنس کے انعقاد میں کامیاب ہوجاتی اور بھارت کو شرکت نہ کر کے سبکی ہوتی۔مگر یہاں معاملہ الٹ ہوا۔ بھارت اپنی کامیاب حکمت عملی سے بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال وغیرہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا۔ ان ممالک نے بھی بھارت کی عدم موجودگی میں کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا ۔ نتیجے کے طور پر یہ کانفرنس پاکستان میں نہ ہو سکی۔
پچھلے ماہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کا بھارت میں انعقاد ہوا جس میں وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے شرکت کی، حالانکہ پاکستان میں ہونیوالی سارک کانفرنس کا بھارت نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اب آپ ہماری حکومت کی پالیسی اور سوچ ملاحظہ کریں کہ بھارت جس نے پاکستان میں منعقدہ کانفرنس میں نہ صرف خود شرکت نہیں کی بلکہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر اس کانفرنس کو پاکستان میں منعقد بھی نہ ہونے دیا اور دوسر ی طرف ہندوستان نے اپنے ملک میں ہونیوالی عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان کو دعوت دی تو ہم باہیں پھیلائے دوستی کیلئے تیار کھڑے تھے۔ جوں ہی بلاوا آیا تو کوئے یار دوڑے چلے آئے گویا کہ ہمارا انتظار ہورہا ہو۔ کانفرنس میں جا کر حکومت کے نمائندہ سرتاج عزیز کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس نے حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کا پول کھول کر رکھ دیا۔
ایک طرف ہمارے حکمران بھارت کے وزیراعظم اور انٹیلی جنس سربراہ سمیت وزراء و افسران کی ایک پورے وفد کو بغیر ویزا رائے ونڈ میں مہمان نوازی کیلئے لے جاتے ہیں اور دوسری طرف ہماری یہ قدر ہوتی ہے کہ سرتاج عزیز کو ایئرپورٹ پر انتظار کرایا جاتا ہے۔ ہوٹل میں دوسرے درجے کے ڈپلومیٹس کی رہائش دی جاتی ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ انہیں میڈیا سے بات کرنے سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ اس پر ختم نہیں ہوتا بلکہ انہیں گولڈن ٹیمپل جانے سے بھی روک دیا جاتا اور ان کا سکیورٹی پروٹوکول آفیسر ان کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
چیئرمین پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ سلطنت شریفیہ صرف ذاتی تعلقات پر یقین رکھتی ہے۔ اسے ملکی تعلق اور وقار سے کوئی سروکار نہیں۔ ہاں اگر ان کے ذاتی تعلقات یا پروٹوکول میں کوئی فرق آئے تو پریشانی ہوگی مگرملکی وقار کی بے حرمتی سے ان کو کیا غرض۔ انہوں نے مودی سرکار سے خاندانی اور ذاتی تعلق قائم کیا ہوا ہے اور پگڑیاں تبدیل کی ہیں۔ سرتاج عزیز کے ساتھ ناروا رویہ دراصل پاکستان کی توہین ہے جس پر حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ انڈیا کو بے نقاب کرنے کے بجائے ہماری یہ خارجہ پالیسی سعودی عرب، عرب امارات اور ایران سمیت اپنے اسلامی ممالک کو مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہی اور صرف یہی نہیں بلکہ انڈیا ان ممالک کو ہمارے خلاف کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے۔
چین اگر ہمارے ساتھ کھڑا ہے تو اس میں ہماری خارجہ پالیسی کا کردار کم اور ان کے مفادات کا عمل دخل زیادہ ہے۔ چائنہ جو اس وقت صنعت کے میدان میں بہت آگے ہے اسے اپنی مصنوعات عالمی منڈی تک پہنچانے کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے، اس لیے محفوظ پاکستان میں ہی ان کا فائدہ مضمر ہے لہٰذا وہ کریڈٹ حکومت اپنے کھاتے میں نہ ڈالے۔ اس وقت ہم شدید جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود بھی اگر دنیا کے سامنے بھارتی ناپاک عزائم کو بے نقاب کرنے میں کامیاب نہ ہو پائے تو خود ہماری ملکی سالمیت و خودمختاری پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہو گا۔ جس وقت تک بین الاقوامی دباؤ کے ذریعہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی عوام پر ظلم اور کنٹرول لائن کی خلاف ورزی سے روکا نہیں جاتا اس وقت تک ہماری حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی پورے ملک کے عوام کیلئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنی رہے گی۔
افغانستان سے روس کے انخلاء سے لے کر افغانستان میں قیام امن اور لاکھوں افغانی مہاجرین کو آج تک پناہ دینے کے باوجود ہماری حکومتیں افغان حکومت کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ پیدا نہ کر سکیں۔ وہاں کی قائم حکومتیں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ یہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس وقت ہندوستان کی افغانستان کے ساتھ براہ راست سرحدیں نہیں ملتیں، اس کے باوجود افغان حکومت پر اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں کو افغانستان میں قائم کردہ قونصلیٹ سے ہینڈل کرتا ہے۔ بالخصوص بلوچستان میں ہونے والی کاروائیوں کے لیے افغانستان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ واضح ثبوت ہونے کے باوجود حکومتِ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کو باور کرانے میں ناکام رہی۔
خارجہ پالیسی کی یہ واضح ناکامی صرف بھارت اور افغانستان سے تعلقات تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار ایران، عرب ممالک، برطانیہ اور امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی پر اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ گذشتہ ماہ ایوان بالا (سینٹ ) میں اس موضوع پر بحث ہوئی اور وہاں پر پوچھے جانے والے سوالات کچھ یوں تھے۔کہ’’ اوفا مذاکرات‘‘ سے کشمیر کا لفظ کیوں نکالا گیا۔۔۔؟ افغانستان حکومت سے اچھے تعلقات پھر خراب کیوں ہو گئے۔۔۔؟ ’’را ‘‘ بلوچستان میں مداخلت کر رہی ہے مگر پاکستان کی خارجہ پالیسی اسے مشتہر کرنے میں ناکام کیوں رہی ؟ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر کیا بات ہوئی۔۔۔؟
ایوان میں یہ بھی کہا گیا کہ خارجہ پالیسی کے ناکام ہونے کی اصل وجہ وزیر خارجہ کا نہ ہونا ہے۔گویا ایوان بالا بھی حکومت کی خارجہ پالیسی پر مطمئن دکھائی نہیں دیتا۔ مگر افسوس حکومت صرف عوام کا مال لوٹنے اور پرانی کرپشن کو چھپانے میں لگی ہوئی ہے ۔اس وقت سلطنت شریفیہ کا سب سے بڑا مسئلہ پانالیکس کا ہے ۔ کچھ دانش مند یہ سمجھتے ہیں کہ پانامہ کا معاملہ سپریم کورٹ میں جانا اچھا شگون ہے اور اس سے پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ مگر چیئرمین پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا کہنا ہے کہ اگر کرپٹ برادران کو کورٹ سے کلین چٹ مل گئی تو سمجھیں پاکستان میں کرپشن کو کلین چٹ مل گئی۔ پھرپاکستان میں کوئی کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت بھی نہیں کر سکے گا۔ حکومتی پالیسیوں میں سے صرف خارجہ پالیسی ہی نہیں بلکہ معاشی، اقتصادی، تعلیمی اور عوام کی بہبود پر مبنی اکثر پالیسیاں ایسی ہیں جو ملک اور عوام دشمنی پر مبنی ہیں۔ یہ تمام ناکام پالیسیاں ان حکمرانوں کی نااہلیت اور ویژن نہ ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2017
تبصرہ