کرپٹ سلطنت شریفیہ کے اقتدار کا خاتمہ ناگزیر ہے
پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اندرونی و بیرونی محاذ پر ریاستِ پاکستان کو کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں۔ مقتدر طبقہ آئین پاکستان کا مذاق اڑا رہا ہے۔ دہشت گرد گروپوں اور کالعدم تنظیموں کے سٹیٹ بنک کی طرف سے منجمد ہونے والے 21 سو اکائونٹس میں سے 1443کا تعلق پنجاب سے صاف ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب دہشت گردوں کا نظریاتی ہیڈ کوارٹر ہے۔ ان دہشت گردوں کے سہولت کار اقتدار میں بیٹھے ہیں جو انہیں تحفظ فراہم کئے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔
دہشت گردی کی سرپرستی، ناقص تر طرز حکمرانی اور کرپشن کی بہتات کی بنا پر چیف جسٹس آف پاکستان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’پاکستان میں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے‘‘۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عرصہ دراز سے انہی حقائق اور حکمرانوں کے معاشی و قومی سلامتی کے منافی اقدامات کی طرف قوم اور مقتدر اداروں کو متوجہ کررہے ہیں اور ان حکمرانوں کو ملک و قوم کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ قومی سلامتی پر ہونے والی انتہائی اہم میٹنگ کی کارروائی کی حکومتی آشیر باد و معاونت سے غلط رپورٹنگ اِن حکمرانوں کی قومی سلامتی کے برخلاف اقدامات کا بین ثبوت ہے۔ قومی ایکشن پلان کے ساتھ حکومت کی طرف سے شرمناک سلوک کا سلسلہ جاری ہے اور حکمران دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ حتی کہ مسئلہ کشمیر پر بھی سیاست ہورہی ہے، جس کا مقصد پانامالیکس کے احتساب اور سانحہ ماڈل ٹائون کے قصاص سے توجہ ہٹانا ہے۔ معاشی طور پر صورت حال بایں جارسید کہ موٹرویز اور ریڈیو پاکستان کی عمارت گروی رکھ کر قرض لئے جارہے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور کشکول توڑنے سمیت قوم سے جتنے بھی وعدے کیے وہ سب جھوٹ ثابت ہوئے۔ قومی غیرت گروی رکھ کر دھڑا دھڑ قرضے لیے جارہے ہیں جس کا سود آئندہ کئی نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔ 60ء کی دہائی سے لیکر آج کے دن تک 10 ایمنسٹی سکیمیں آئیں جس کا فائدہ صرف اور صرف ٹیکس چوروں، ڈرگ سمگلرز اور منشیات فروشوں کو پہنچا۔ بار بار ایمنسٹی سکیموں سے ٹیکس چوروں کے حوصلے بڑھائے گئے جس کی قیمت عام آدمی بجلی، گیس کے مہنگے بلوں، جی ایس ٹی میں غیر قانونی اضافہ اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ حکومت کی کرپشن اور کمیشن پر مبنی معاشی فیصلوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری میں رواں سال 53 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
سی پیک کے قصے سنانے والے حکمران پیسہ اورنج ٹرین اور میٹرو بسوں جیسے شاہی منصوبوں پر خرچ کر کے ٹیکسوں، غربت اور ملکی قرضوں میں اضافہ کررہے ہیں۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ عوام کیلئے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی ناممکن ہو چکی ہے۔ سپیشل ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ فاٹا میں 73 فیصد غربت ہے، بلوچستان میں 71 فیصد، خیبرپختونخوا میں 49 فیصد، گلگت بلتستان میں 43 فیصد، سندھ میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ 80 فیصد آباد ی صاف پانی اور 60 فیصد آبادی تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
ان حالات میں 19 کروڑ عوام اور قومی سلامتی کے اداروں کو فیصلہ کرنا پڑیگا کہ انہیں ملک کو عالمی مہاجنوں کا محکوم اورچند کرپٹ خاندانوں کی چراگاہ بنانا ہے یا اسے حقیقی معنوں قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے۔ شریف برادران کی کرپشن کے ثبوت واضح ہیں مگر کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ شریف برادران ملکی سلامتی اور غریب عوام کے دشمن ہیں۔ ان کے ہوتے ملک بحرانوں کا شکار رہے گا کیونکہ ان کے مالی مفادات دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کے وفادار نہیں ہیں۔ پانامہ لیکس کے انکشافات، سانحہ ماڈل ٹاؤن، دشمن ملک کے جاسوسوں کا اِن کی ملز سے پکڑے جانے پر اِن کی خاموشی اور قومی سلامتی پر غلط رپورٹنگ کو دانستہ میڈیا پر مشتہر کروانا، یہ تمام واقعات اس کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
موجودہ جمہوریت اکثریتی آمریت میں بدل چکی ہے، ادارے بے توقیر اور غیر فعال ہو چکے ہیں۔ نظام ڈلیور نہیں کر رہا۔ مافیا اس نظام کو اور یہ نظام مافیا کو تحفظ دے رہا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے ادارے میں ن لیگ کے خاندانی نوکر اور نیاز مند بیٹھے ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا عملی مظاہرہ کرتے اور ان کی ریاستی و معاشی دہشت گردی کو چھپانے میں اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی، حقیقی معنوں میں آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن اور ادارہ جاتی اصلاحات انتہائی اہم امور ہیں۔ مگر حکمرانوں کو اِن سے کوئی سروکار نہیں اس لئے کہ اِن امور کا اسی طرح چلتے رہنا ہی ان کے حق میں ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے اس نظام میں ان کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ کوئی بھی جماعت تنہا موجودہ لٹیرے اور شاطر حکمرانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ قومی خزانوں کے لٹیروں اور انسانیت کے قاتلوں کا احتساب نہ ہوا تو پھر جتنے بھی انتخابات ہوجائیں، ہر الیکشن اس سول آمریت اور کرپشن کے کلچر کو مضبوط کرے گا۔ یہاں تو پارلیمنٹ وزیراعظم کا محاسبہ نہیں کرسکتی۔ عدلیہ بھی جراتمندانہ اقدام سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔
ان حالات میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی محب وطن، جمہوریت پسند اور با شعور قیادت اور کارکنان نے وقت کے فرعون صفت حکمرانوں کو ہر محاذ پر چیلنج کررکھا ہے۔ ہمارے کارکن قومی جمہوری مقاصد کے اہداف کے حصول کیلئے آج بھی پر عزم اور تازہ دم ہیں۔ ہم انصاف کے حصول، کرپشن کے خاتمہ اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لئے اس ظالم نظام اور فرعون صفت حکمرانوں کے خلاف جہدوجہد جاری رکھیں گے اور پاکستان کو اِن ریاستی و معاشی دہشتگردوں کے چنگل سے آزاد کرواکر دم لیں گے۔
ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نظام میں اب چہروں کی تبدیلی کی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ باپ کے بعد بیٹی، بیٹے اور بھانجے، بھتیجے تیار بیٹھے ہیں۔ اِن ہاؤس تبدیلی ہو یا اس نظام کے تحت نئے الیکشن کچھ نہیں بدلے گا بلکہ یہی گینگ پھر واپس آجائے گا۔ قوم اور ملک کو آئین کی اصل روح والا جمہوری نظام اور آزاد ادارے چاہئیں جن کے ہوتے ہوئے کسی کو اپنے بنیادی حقوق کیلئے سڑکوں پر نہ آنا پڑے۔ جب تک قومی لٹیروں سے پائی پائی وصول نہیں کر لی جاتی اور الیکشن کمیشن، نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے، پولیس اور سرکاری اداروں کو آئین کے مطابق آزادی نہیں مل جاتی، ملک اور قوم خوشحال نہیں ہوں گے۔ اس کے لئے کرپٹ سلطنت شریفیہ کے اقتدار کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ نا گزیر ہے اور اس حوالے سے قوم کواپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2016
تبصرہ