فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا وقت!
انصاف، مشاورت، اختیارات کی تقسیم، بنیادی حقوق اور جان و مال کے تحفظ کا نام جمہوریت ہے۔ وہ نظام قطعاً جمہوریت نہیں ہوسکتا جو کرپشن، دہشتگردی، دہشتگردوں کی سہولت کاری اور پاکستان کی سالمیت پر سودے بازی کیلئے استعمال ہو۔ جمہوریت کا مطلب انصاف، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور کمزور کو طاقت ور کے ظلم سے بچانا ہے۔ جبکہ بدقسمتی سے مملکتِ پاکستان کے نام نہاد حکمران اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے مظلوموں کو پھنسوانے، انہیں بلیک میل کرنے کے لئے آئین و قوانین میں من چاہی ترامیم کرتے ہیں اور پھر اس نظام کو جمہوری نظام کہنے پر بھی بضد نظر آتے ہیں۔ حکومتی اداروں کی ناکامیاں ہر آئے روز عیاں ہوتی چلی جارہی ہیں۔ آلِ شریف کی شکل میں مسلط ان حکمرانوں نے تمام نظام کو خرید رکھا ہے۔ ہر جگہ انکے خریدے ہوئے لوگ بیٹھے ہیں جو انکے جائز، ناجائز مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
جمہوریت کے نام پر فرعونی نظام رائج ہے۔ موجودہ لوٹ کھسوٹ اور ظلم پر مبنی نظام نے قوم کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ لٹیرے کہتے ہیں کرپشن کلچر کا حصہ بن چکی اسے قبول کر لو، ظلم معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اس پر احتجاج نہ کرو۔ انہوں نے ایسا نظام تشکیل دے رکھا ہے کہ 20 کروڑ عوام انفرادی حیثیت میں جینے پر مجبور ہیں، ایک قوم کے تصور کو بری طرح مجروح کر دیا گیا اور عزت دار لوگوں کو انکے ذاتی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔ شریف برادران پاکستان کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں، اسی لئے اگر کوئی ان کے ظلم کو چیلنج کرے تو یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کر دیتے ہیں۔
قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکمران خاندان کی طرف سے ملکی سالمیت پر حملوں کے حوالے سے جو انکشافات کئے، آج کے دن تک اسکی سرکاری سطح پر تردید نہیں آئی۔ یہ خاموشی ان کے جرم کا اعتراف ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اس مسئلہ پر اپنی پوزیشن واضح کرتی، انھوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے بچنے، عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کو دہشت گرد اور کالعدم تنظیم قرار دینے کیلئے پنجاب حکومت نے نواز شریف کے حکم پر ایک نئی طرز کا سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور قائد انقلاب کی رہائش گاہ کو سرچ آپریشن کے نام پر ایک دفعہ پھر ٹارگٹ بنانے کا گھناؤنا منصوبہ بنایا گیا۔ ان مکروہ حکومتی عزائم کا قائد انقلاب نے قبل از وقت انکشاف کر دیا، جس بناء پر حکومت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی مگر اب بھی ان سے کچھ بعید نہیں۔ اس حوالے سے افواج پاکستان، آئی ایس آئی، ایم آئی اور رینجرز کے سربراہان کو پیشگی آگاہ کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی دہشتگردی ہوئی تو پھر ان اداروں کے سربراہان جوابدہ ہونگے۔ اس لئے کہ پنجاب پولیس کے پاس بدمعاش بھی ہیں، اسلحے کے ڈھیر اور کرائے کے قاتل بھی ہیں۔ لہذا وہ اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن پوری دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے اور فروغ امن کی تحریک ہے۔ دہشت گردی کو رد کرتے ہیں اور اسے کفر سے بھی بدتر فعل سمجھتے ہیں۔ ہم امن کے قیام کی جنگ لڑرہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ منہاج القرآن عالم اسلام کی واحد تنظیم ہے جسے اقوام متحدہ نے علم اور امن کیلئے بے مثال خدمات انجام دینے پر کنسلٹنٹ کا درجہ دیا۔ ہمیں اپنے انسٹیٹیوشن کی عزت اور وقار سب سے زیادہ عزیز ہے اسے کبھی داؤ پر نہیں لگنے دیں گے اور نہ ہی ایسا کرنے کی کسی کو جرأت کرنے دینگے۔
حکومت کے یہ اوچھے ہتھکنڈے اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ حکومت کے چل چلاؤ کا وقت قریب ہے۔ اس لئے وہ افراتفری میں اپنے آپ کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حتی کہ اہم منصوبوں کا ریکارڈ بھی ضائع کیا جارہا ہے۔ میٹرو بس لاہور کا ریکارڈ ضائع کرنے کیلئے ایل ڈی اے پلازہ کو آگ لگوائی گئی۔ نندی پور پاور پراجیکٹ میں فرنس آئل چوری کا سکینڈل بھی آگیا۔ تیل کی خریداری اور استعمال کا ریکارڈ چوری کیا جا چکا ہے۔ 30 ارب روپے کے سستی روٹی سکینڈل کا 80 فیصد ریکارڈ غائب کر دیا گیا۔ قرض خوروں اور ٹیکس چوروں کی فائلیں بھی غائب ہورہی ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں زلزلہ ہے۔ اورنج ٹرین منصوبہ کا ریکارڈ بھی کسی سرکاری دفتر میں موجود نہیں۔ ان حالات میں ملکی ایجنسیوں اور عدالتوں کو اس کا نوٹس لینا ہوگا اور میگا منصوبے میں موجود میگا کرپشن کے واقعات کے ریکارڈ کو چوری یا ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔ سنگین جرائم، کرپشن اور دہشتگردی کا موجودہ گٹھ جوڑ نہ ٹوٹا تو آپریشن ضرب عضب کے ثمرات اور اثرات برقرار نہیں رہ سکیں گے۔ جرائم کی سرپرستی اور دہشتگردی کو فروغ دینے والے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ جو نیشنل ایکشن پلان پر بھی اسکی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہونے دے رہے۔
پاکستان کو ایشیاء کا اقتصادی ٹائیگر بنانے کے دعویدار حکمران پاکستان کو ایشیاء کا مقروض ترین ملک بنانے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ کشکول توڑنے کا انتخابی اعلان کرنے والوں نے کشکول کا سائز بڑا کر کے بچے کا بال بال تک قرضے میں جکڑ دیا۔ حکمران اسی شرح سے قرضے لیتے رہے توجلد قرضوں کا حجم مجموعی ملکی اثاثوں سے بڑھ جائے گا اور ملک تکنیکی اعتبار سے دیوالیہ ہو جائیگا۔ کرپشن، قرضوں اور غربت میں اضافہ کے ذمہ دار ان ٹیکس چور اور کمیشن خور حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان ٹیکس چور حکمرانوں نے اپنے ناجائز اثاثے اور دولت چھپانے کیلئے ایف بی آر کو ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرنے سے بھی روک رکھا ہے۔ جس ملک کا سب سے بڑا صنعتی خاندان سب سے بڑا چور ہو وہاں ٹیکس کون دے گا؟ پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ ان کرپٹ حکمرانوں کے جرائم پر ان سے باز پرس نہیں کر سکتا۔ ٹی او آرز بنانے میں ناکامی اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔
قرضے معاف کرنے سمیت ڈیڑھ سو میگا کرپشن کے کیسز کی فہرست بھی ریکارڈ پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟ سب ادارے ملک کو لٹتے ہوئے دیکھ کر خاموش کیوں ہیں؟
پاکستان عوامی تحریک کی قصاص تحریک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تاجروں، کسانوں، ہاریوں، مزدوروں، کلرکوں، نرسز، ینگ ڈاکٹرز، اساتذہ اور طلبہ کے حقوق کی بازیابی کی تحریک ہے۔ قصاص سے انصاف عام ہو گا۔ پاکستان اس وقت ظلم اور ناانصافی کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ اسی ناانصافی سے دہشت گردی نے جنم لیا۔ ناانصافی ختم ہو گی تو طاقتوروں کا ظلم ختم ہو گا ا ور پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہو گا۔پاکستان عوامی تحریک وقت کے یزید صفت حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے۔ عوام گھر بیٹھ کر تڑپنے اور سسکنے کے بجائے اپنے حق کیلئے باہر نکلیں اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ظلم کے نظام کے خاتمہ کیلئے اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں۔
تبصرہ