شریف برادران نے ہمیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد روکنے کا حکم دیا : خرم نواز گنڈاپور کا بیان
پرویز رشید نے کہا یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے
اور پھر 17 جون کی قیامت ڈھا دی گئی
پولیس نے بے رحمانہ فائرنگ کر کے 10 کارکنوں کو موقع پر ہی شہید کر دیا، ہم انصاف کے
طلب گار ہیں
حکومت نے اپنے گناہ کا اعتراف اور مظلوموں کی اشک شوئی کی بجائے جھوٹے مقدمے درج کروائے
لاہور (20 ستمبر 2016) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے انسداد دہشت گردی کی عدالت لاہور میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ مجھے فیاض وڑائچ اور سید الطاف حسین شاہ کو 15 جون 2014ء کو نماز مغرب کے وقت چیف منسٹر ہاؤس سے آنے والی گاڑی پر ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک پہنچایا گیا جس کی ہمیں پہلے سے اطلاع دی گئی تھی۔ ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک میں ہمارے پہنچنے سے پہلے وہاں پر وزیراعظم میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، چودھری نثار، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، رانا ثناء اللہ، پرویز رشید، خواجہ آصف موجود تھے۔ ہمیں تحکمانہ انداز میں کہا گیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد اور انہیں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک سے روکیں۔ ہمارے انکار پر وزیراعظم نواز شریف اور میاں شہباز شریف سخت تعیش میں آگئے اور کہا کہ ہم اس تحریک کو کچل کررکھ دیں گے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے اور پھر میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد اور آپ کی تحریک کو مانیٹر کرنے کیلئے چودھری نثار، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے جو اس ساری صورتحال سے نمٹ لے گی۔ ایک روز بعد 16 جون 2014ء کی درمیانی شب پولیس کی بھاری نفری نے تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ اور سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا اور قیامت ڈھا دی۔ پولیس نے ہمیں بتایا کہ ہم غیر قانونی بیریئر ہٹانے آئے ہیں اور اس کا حکم ہمیں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ نے دیا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری کی قیادت ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی طارق عزیز اور درجنوں پولیس افسران کررہے تھے جن کی جملہ تفصیل استغاثہ میں درج ہے۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ہم نے پولیس افسران کو بتایا کہ یہ بیریئر لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر لگے ہیں آپ کے پاس اگر کوئی نئے آرڈر ہیں تو ہمیں دکھا کر بیریئر ہٹا لیں مگر پولیس افسران کسی قسم کے آرڈر دکھانے میں ناکام رہے اور پھر یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے آنسو گیس کی شیلنگ، تشدد شروع کر دیا جس سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، 17 جون 2014 ء کے دن بے رحمانہ فائرنگ اور تشدد کے نتیجے میں عوامی تحریک کے 10 کارکن جن میں 2 خواتین بھی شامل تھیں موقع پر جاں بحق ہو گئیں۔ 70 کے قریب شدید زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری حکومت کے ماورائے قانون اقدامات، بیروزگاری، مہنگائی اور استحصال کے خلاف اپنا آئینی احتجاجی حق استعمال کرنا چاہتے تھے جسے روکنے کیلئے پولیس نے بے رحمانہ فائرنگ کی اور لاشیں گرائیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارے ساتھ ظلم و ریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت اعتراف گناہ کے ساتھ ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کرتی مگر انہوں نے ہم بے گناہوں کے خلاف جھوٹے واقعات پر مبنی ایف آئی آر درج کر کے ہمارے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کر کے ظلم اور ناانصافی کی حد کر دی ہم انصاف کے طلب گار ہیں۔ مزید سماعت 27 ستمبر تک ملتوی۔
خرم نواز گنڈاپور جو پولیس ایف آئی نمبر 510 میں اشتہاری قرار دئیے گئے تھے نے اپنا بیان قلمبند کروانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت کروائی اور اپنا بیان قلمبند کروایا۔
تبصرہ