قیامِ پاکستان کا مقصد اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ
محمد احمد طاہر
مملکت خداداد پاکستان دنیا کا عظیم اسلامی ملک ہے۔ یہی دنیائے اسلام کا واحد ایٹمی پاور ہے جو ایک نظریہ کے تحت وجود میں آیا۔ اگست کا مہینہ آزادی پاکستان کا مہینہ ہے۔ اسی مہینے کی چودہ اور پندرہ تاریخ کی درمیانی شب قیام پاکستان کا اعلان ہوا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے اسلامی ملک کا اضافہ ہوا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ اس موقع پر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا مقدس اور مقبول نعرہ مسلمانوں کا شعار بن چکا تھا۔ حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطابات میں جابجا اسی دو قومی نظریئے اورنظریہ پاکستان کا پرچار کیا۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 8مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا، جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن اور نسل نہیں۔۔۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا مقصد کیا تھا؟۔۔۔ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟۔۔۔ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔۔۔ اس کی وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری یا انگریز کی چال نہیں، اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
1945ء کو گاندھی کے نام ایک خط میں حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے نظریہ پاکستان کی وضاحت یوں کی:
ہندو اور مسلمان ہر چیز میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہمار امذہب، تہذیب و ثقافت، تاریخ، زبان، طرز تعمیر، موسیقی، قانون، اصول قانون، کھانے پینے کے انداز، معاشرت کے طریقے، لباس غرض کہ ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے، صرف ووٹ ڈالنے کی صندوقچی میں دونوں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔
اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 23 مارچ 1940ء کے تاریخی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں، درحقیقت مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور باہم متصادم ہیں۔
حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ آج کچھ لوگ مغالطہ آفرینی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے، حالانکہ بانی پاکستان اسلام سے حقیقی وابستی رکھنے والے صاف، جرات مند اور راست فکر رہنما تھے۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر فرمایا:
ہم پاکستان کا مطالبہ صرف ایک خطہ زمین حاصل کرنے کے لئے نہیں کررہے بلکہ ہم اسے اسلامی نظام حیات کی ایک لیبارٹری کے طور پر استعمال کرکے دنیا والوں کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ دور جدید میں بھی اسلام ہی ہمارے تمام مسائل کا واحد حل اور ہماری ترقی کا ضامن ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
میں مطمئن ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ و جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہوگی۔ یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپیٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی، جس طرح سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کا گورستان بنا۔۔۔ پاکستان میں اگر کسی نے روٹی کے نام پر اسلام کے خلاف کام کرنا چاہا یا اسلام کی آڑ میں کیپیٹل ازم، سوشلزم، کمیونزم، یا مارکسزم کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور عوام اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔
15 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ایسا بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا کہ جس کی روشنی سے آج بھی تاریخ پاکستان منور ہے، آپ نے فرمایا:
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال قبل قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری دینی رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔
یہ وہ پاکستان تھا جو علامہ اقبال اور قائداعظم چاہتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے آج کا پاکستان اقبال و قائد کے تصور پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ آج ہمارے ملک کی 20 کروڑ آبادی مختلف مذہبی، اخلاقی، سیاسی، گروہی، نسلی اور معاشی گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ 1947ء سے قبل مسلمان ہندو بنیے کا غلام تھا، آج ہر پاکستانی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا اس حد تک غلام ہے کہ ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے تک کا مقروض ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بجلی، پانی، تیل، گیس کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کا تعین بھی آئی ایم ایف کرتا ہے۔ افسوس آج ہم ایک قوم بھی نہ رہے، ہم ایک ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ مختلف سوچوں اور فکروں میں بٹ چکے ہیں۔
شاید فیض احمد فیض نے بھی انہی حالات کے پیش نظر کہا تھا:
میرے وطن تیری گلیوں میں اندھیرا کیوں ہے
دن بھیانک ہیں، بہت دور سویرا کیوں ہے
جس نے معصوم لہو گلیوں میں گرایا ہے
جس نے اس دیس کی ماؤں کو رلایا ہے
زمین پاک کی حرمت کو بچانے کے لئے
سن لو ظالم تمہیں انجام دکھانے کے لئے
دیکھ ماں اب تیرے دلیر چلے آتے ہیں
سر پہ باندھے ہیں کفن شیر چلے آتے ہیں
اور حبیب جالب نے کہا تھا:
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں ہو پھنسی
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
اے پاکستانی قوم! اگر ہم اس بھنور اور بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو آیئے اس یوم آزادی کے موقع تجدید عہد کریں کہ ہم باہم متحد ہوکر اس اپنے پیارے وطن عزیز کو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا حقیقی پاکستان بنانے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 14 فروری 1947ء کو سبی کے قبائلی دربار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے بنایا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھیں۔
پاکستان میں اگر اسلام صحیح معنی میں مکمل طور پر نافذ ہوجائے تو اس میں صرف پاکستان کے مسلمانوں کا ہی بھلا نہیں بلکہ دنیائے انسانیت کی بھی بھلائی ہے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لئے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔
اٹھو لوگو! بغاوت سے قیامت اب بپا کردو
تمہیں خاموش رہنے کی یہ عادت مار ڈالے گی
سیاست گر بچانی ہے، سیاست چھین لو ان سے
وگرنہ اس ریاست کو سیاست مار ڈالے گی
آخر پر اس دعا پر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش مدو سال نہ ہو
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2016
تبصرہ