حکمران عوام کے مسیحا عبدالستار ایدھی سے سبق سیکھیں
عبدالستار ایدھی پاکستان کا فخر اور عظیم انسان تھے۔ رہتی دنیا تک ان کی خدمات کے منصوبے قائم و دائم رہیں گے۔ انہوں نے اپنی خدمت کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں کے دل پر حکومت کی۔ خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے پر کروڑوں کے اشتہار چھپوانے والے دیکھ لیں کہ عوام کے سچے خادم نے دلوں پر حکومت کرنے کیلئے کس طرح سادگی سے زندگی بسر کی۔ اس کیلئے صدق دل سے دوسروں کی خدمت کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ادارے کی ایمبولینس سروس شروع کرنے پر ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بنا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقدہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے عبدالستار ایدھی کی انسانی، رفاہی اور فلاحی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ عبدالستار ایدھی پوری دنیا میں پاکستان کا فخر اور تعارف تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہئے۔ ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے سوگواران 20 کروڑ عوام ہیں۔
جب ملک اور قومیں مشکل میں گھرتی ہیں تو اس وقت حکمران سچ بول کر حالات کا مقابلہ اور قوم کا اعتماد حاصل کرتے اور ملک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں مگر پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے حالیہ 3 سال عوام اور غیر ملکی مالیاتی اداروں کو دھوکہ دینے اور مسلسل جھوٹ بولنے میں گزارے، اس لیے موجودہ حکومت کی عوام اور بین الاقوامی سطح پر کوئی ساکھ قائم نہیں ہو سکی اور اس کے خطرناک نتائج کا سامنا پاکستان بطور ریاست کررہا ہے۔ حکمران جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ کازہر قومی سیاسی جسم کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے۔ الیکشن جیتنے سے لیکر اقتدار کے آخری دن تک جھوٹ بولا جاتا ہے۔ عوام کو ترقی اور خوشحالی کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور 68 سال سے اسی نام نہاد ترقی کا سفر جاری ہے۔
وزیراعظم نے دو بار قوم سے خطاب کرتے ہوئے اور ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے خود کو اور اپنے خاندان کو پانامہ لیکس کے حوالے سے احتساب کیلئے پیش کیا مگر جب ٹی او آرز بنانے کی بات ہوئی تو وہ اپنے وعدوں اور دعوؤں سے منحرف ہو گئے۔ کیا پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بولنے والے شخص کو اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کا وزیراعظم برقرار رہنا چاہیے؟انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ جھوٹ بولنے میں ایک خاص مقام حاصل کر چکے ہیں وہ ریونیو کے 100 فیصد اہداف حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بول کر عالمی مالیاتی اداروں کو دھوکہ دیتے اور مزید قرضے حاصل کر کے قوم کو سود کے شیطانی جال میں الجھاتے چلے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق دورحکومت میں 9فیصد شہری ٹیکس دیتے تھے اب یہ شرح ایک فیصد کم ہو کر 8فیصد رہ گئی ہے۔ جھوٹی حکومت کو عوام اس لیے ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے دئیے گئے ٹیکس ملک اور عوام کی ویلفیئر کی بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں، اللوں تللوں اور آف شور کمپنیوں میں چلے جائینگے۔
پانامہ لیکس اور سانحہ ماڈل ٹائون کے فیصلوں سے 19 کروڑ عوام کو ان کے خزانے کے ڈاکوئوں اور انسانیت کے قاتلوں سے نجات ملے گی۔ 31 جولائی کے بعد حکمرانوں کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی، حکمرانوں اور انکے حواریوں کو علم ہو چکا ہے کہ انکا دھاندلی زدہ اقتدار’’ سفر آخرت‘‘ پر ہے۔ پاکستان کو آئین نہیں خواہشات کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔ ایک خاندان 30 سال سے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کا مذاق اڑا رہا ہے۔ پانامہ لیکس کے حقائق انکا اصل چہرہ ہیں، اس عالمی کرپشن کا انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے، کوئی جواب ہوتا تو وزیر اعظم ’’قومے‘‘ میں نہ ہوتے۔ غیر فعال وزیر اعظم نے19کروڑ عوام کو بند گلی میں کھڑا کر رکھا ہے۔ ملکی سرحدوں پر حملے ہوں یا بعض اسلامی ملکوں میں انسانیت کے خلاف درندگی، وزیر اعظم مسلسل چپ اور قومے میں ہیں۔ پاکستان کی سلامتی کے امور سیکرٹریوں کے سپرد کر دئے گئے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی بعض نہایت اہم اشوز پر وزیر اعظم کی خاموشی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے، لہذا پاکستان کو ایک اہل، ایماندار، محب وطن اور عوامی امنگوں کے ترجمان وزیر اعظم کی ضرورت ہے۔ حالیہ تمام تر غیر آئینی، غیر جمہوری، غیر اخلاقی طرز حکمرانی کے باوجود وزیر اعظم احتساب سے بچنے اور کرسی سے چمٹے رہنے کے طریقے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ حقیقی جمہوریت میں رائے عامہ کے خلاف وزیر اعظم ایک دن کیلئے بھی اقتدار کے ایوانوں میں ٹھہرنا گوارا نہیں کرتا، پانامہ لیکس کے بعد آنے والے سربراہان مملکت کے استعفے اسکی واضح مثال ہیں۔
لہذا 31 جولائی کا دن پاکستان کے عوام کیلئے اطمینان اور خوشی لائے گا اور اپوزیشن قیادت کا اجلاس پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کی نوید بنے گا۔ کیونکہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف فیصلہ کن عوامی تحریک ناگزیر ہے۔ حکمران تو چاہتے ہیں کہ انکے خلاف جو بھی الزامات ہیں وہ سرکاری کمیٹیوں اور عدالتوں کے پلیٹ فارم پر ہی گردش کرتے رہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہاکہ 33 روز سے الیکشن کمیشن کا آئینی ادارہ غیر فعال ہے۔ 5 ضمنی انتخابات اور دو صوبوں میں بلدیاتی الیکشنز کے آخری مراحل التوا کا شکار ہیں، منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنا آئینی، جمہوری کردار اداکرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 45 روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری ہو جائے گی۔ کیا 45 روز تک جمہوریت کو معطل رکھا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لئے ہم کہتے ہیں پاکستان کو آئین نہیں خواہشات کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2016
تبصرہ