ایکشن پلان پر عمل نہ کرنے والوں اور دہشتگردوں میں کوئی فرق نہیں: ڈاکٹر طاہرالقادری
جس مائنڈ سیٹ نے 17 ماہ ایکشن پلان پر عمل نہیں ہونے دیا وہ اب
بھی باز نہیں آئیگا
شریف حکومت ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں اور دہشت گردی کے ہزاروں شہداء کی مجرم ہے، گفتگو
لاہور (15 اگست 2016) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے سینکڑوں معصوموں کے خون کو فراموش کرنے والوں کے ہاتھ میں دہشت گردی کی جنگ کا ریموٹ کنٹرول دیا گیا تو یہ سانحہ کوئٹہ کے شہداء سمیت دہشتگردی کے ہزاروں شہداء کا خون بھی اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دینگے۔ 17 ماہ تک دہشت گردی کی جنگ کو مذاق سمجھنے والوں کے خلاف پہلے کارروائی ہونی چاہیے اس کے بعد کسی نئے پلان پر عملدرآمد کا آغاز ہونا چاہیے۔ غفلت کے مرتکب حکومتی عہدیداروں کے خلاف کارروائی ایکشن پلان کا حصہ ہونی چاہیے۔ وہ گزشتہ روز پارٹی رہنماؤں اور مختلف وفود سے گفتگو کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب عناصر اور دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز حکومت صرف فوج کے دباؤ کی وجہ سے میٹنگوں کے تکلف کرتی ہے انہیں قومی سلامتی کے اداروں کی کمٹمنٹ اور عزم کا دباؤ نہ ہو تو یہ میٹنگوں کے تکلف بھی نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ جس مائنڈ سیٹ نے 17 ماہ ایکشن پلان پر عمل نہیں ہونے دیا وہ اب بھی باز نہیں آئے گا۔ شریف حکومت ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں اور دہشت گردی کے ہزاروں شہداء کی مجرم ہے۔ قوم کو بتایا جائے دہشتگردی کی جنگ کے راستے کا پتھر کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی لاشیں گرتی ہیں حکومت نیا پلان لے آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کو بھی ایک سال کی تاخیر کا نشانہ بنا کر بڑے ٹارگٹس کو بھاگنے کا موقع دیا گیا اور اب 17 ماہ تک ایکشن پلان کو تاخیری ہتھکنڈوں کا نشانہ بنا کر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کو طویل اور پیچیدہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کیلئے پوپا ایکٹ کے حوالے سے حکومتی رویے کو سمجھنا ہو گا۔ دہشت گردی کے کیسز کو جلد سے جلد نمٹانے کیلئے پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ منظور کیا گیا تھا اور اسکے تحت خصوصی عدالتیں بننا تھیں اور اس ایکٹ کی مدت بدنیتی کی بنا پر دو سال رکھی گئی۔ دو سال میں ان عدالتوں کو مطلوبہ عملہ بھی نہ دیا گیا اور دو سالوں میں عدالتوں کو جو 32 کیسز ریفر کیے گئے ان میں سے تاحال ایک کا بھی فیصلہ نہیں ہوا اور اب ان 32 سنگین کیسز کا کسی کو کوئی قانونی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ ان کیسز میں حکومت کے ایک وزیر کی دہشت گردوں کے ہاتھوں موت اور ایک ایم پی اے کے اغواء کا کیس بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوپا ایکٹ 15 جولائی 2016 سے کالعدم ہے۔ وفاقی حکومت دہشت گردی کی جنگ میں سنجیدہ ہوتی تو اس ایکٹ کو دوبارہ اسمبلی سے منظور کرواتی یا اس کی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مدت بڑھاتی مگر اس حوالے سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ نئے پلان ضرور بنائے جائیں مگر پہلے پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ اس حوالے سے ذمہ داری فکس ہونی چاہیے۔
تبصرہ