پنجاب کے ’’اورنج‘‘ بجٹ میں غریب آدمی کیلئے کچھ نہیں : عوامی تحریک
16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ 5 لاکھ ملازمتوں میں اضافے کا اعلان دیوانے کا خواب ہے
جنوبی پنجاب کے ساتھ جھوٹے وعدے کرنے کا سلسلہ مسلسل آٹھویں سال بھی جاری رہا: خواجہ عامر فرید کوریجہ
پنجاب کو کمپنیوں کے ذریعے چلایا جارہا ہے، بجٹ مسترد کرتے ہیں، صوبائی صدر بشارت جسپال
لاہور (13 جون 2016) پاکستان عوامی تحریک کے سینئر مرکزی رہنما خواجہ عامر فرید کوریجہ اور پنجاب کے صدر بشارت جسپال نے کہا ہے کہ پنجاب کے ’’اورنج ‘‘ بجٹ میں جنوبی پنجاب اور غریب آدمی کیلئے کچھ نہیں ہے۔ 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ 5 لاکھ ملازمتوں میں اضافے کا اعلان دیوانے کا خواب ہے۔ صاف پانی فراہمی کے بجٹ میں 88 فیصد اضافے کی بڑی وجہ غیر ملکی کمپنیوں کو نوازنا ہے جس کی منصوبہ بندی دبئی میں پچھلے ہفتے ہو چکی۔ پنجاب کو کمپنیوں کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ خواجہ عامر فرید کوریجہ نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کے حقوق کے قاتل وزیراعلیٰ پنجاب ایوان کو بتائیں کہ جنوبی پنجاب کیلئے گزشتہ سال جو بجٹ رکھا گیا تھا ا س میں سے کتنا استعمال ہوا؟ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں استعمال ہونے والے بجٹ کی شرح 37 فیصد سے کم ہے۔ 64 فیصد بجٹ اورنج لائن اور لاہور کی تزئین و آرائش پر خرچ ہوا۔ حالیہ بجٹ کے بعد ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ جب تک ن لیگ اقتدارمیں رہے گی جنوبی پنجاب کی حالت تبدیل نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اورنج بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک پنجاب کے صدر بشارت جسپال نے بجٹ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تھانہ کلچر کو بدلنے کے دعویدار پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کو تباہ و برباد کرنے کے ذمہ دارہیں، جب تک پولیس حکومتی اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد نہیں ہو گی سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے کامیاب اور چھوٹو گینگ جیسے ناکام آپریشن ہوتے رہیں گے۔ پنجاب کے بجٹ میں غیر ملکی قرضے لینے کی روایت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے 8 سال میں جتنے بھی منصوبے دئیے وہ خزانے کی بربادی ثابت ہوئے جن میں سستی روٹی، دانش سکول، آشیانہ، گرین ٹریکٹر، پیلی ٹیکسی اور فوڈ سپورٹ پروگرام شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیپ ٹاپ سکیم بھی ناکام ثابت ہو چکی ہے لیکن کمیشن کی خاطر اسے جاری رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کنٹرول کرنے کا کوئی پروگرام شامل نہیں ہے۔ پنجاب کے ذمہ واجب الادا ملکی و غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کے اخراجات بھی کنٹرول ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔
تبصرہ