آئین و قانون شکن حکمرانوں سے نجات ضروری ہے!
ملک پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ پر مامور حکمران آئین و قانون کو اپنی من پسند خواہشات کے مطابق استعمال کرنے میںمصروف عمل ہیں۔ جب کوئی ان قانون شکنیوں پر احتجاج کرتا ہے تو اقتدار پر قابض یہ مخصوص حلقہ شور بلند کرنا شروع کردیتا ہے کہ ’’غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کئے جارہے ہیں‘‘، ’’جمہوریت خطرہ میں ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت چلانے کا یہ طریقہ ہے کہ ملک کو آئین و قانون کی عملداری سے مکمل آزاد کردیا جائے اور جس حد تک بھی ہوسکے ببانگ دھل عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کے سلسلہ کو جاری رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان نا اہل اور بد عنوان حکمرانوں کے ہاتھوں ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں، کرپشن دیمک کی طرح ملکی وسائل کو چاٹ رہی ہے، ٹیکس چوروں، قرض معاف کرانے والوں اور کرپشن کنگ حکمرانوں نے ملک و قوم کے مستقبل کو تباہی سے دو چار کر دیا ہے۔ قوم کو تعلیم، صحت سمیت تمام بنیادی حقوق کی سہولتوں سے محروم رکھنے والے یہ حکمران انسانیت کے دشمن ہیں اور عوام کا خون نچوڑ کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں خاندان غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کے اثاثے دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ الغرض تین سال قبل غیر آئینی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے جعلی انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی جعلی حکومت کی بداعمالیوں کا نتیجہ آج پوری قوم اور ادارے بھگت رہے ہیں۔
پانامہ لیکس میں موجود کرپشن کے دستاویزی ثبوت ایک کھلی کتاب کی مانند پوری قوم کے سامنے ہیں۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حکمرانوں نے پوری قوم کو الجھا رکھا ہے۔ وزیراعظم یہ بتانے پر تیار نظر نہیں آتے کہ انہوں نے دولت کہاں سے کمائی اور بیرون ملک کیسے پہنچائی اور وہاں بڑے بڑے محلات کس طرح خریدے؟ حکمرانوں کی خدمات غیر ملکی بنک بھرنا اور مشکوک دولت سے کھربوں کی جائیدادیں بنانا ہے۔ اپنے ذاتی کاروبار کو کامیابی سے چلانے والے پاکستان کے ہر ادارے کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے دعویدار ضرورت کی ہر چیز کو غریب کی پہنچ سے دور کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ آئندہ بجٹ میں 500ارب کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔جو حکمران خاندان خود آف شور کمپنیاں بنا کر ٹیکس چوری کرتے ہوں، انہیں تاجروں، صنعتکاروں اور دیگر طبقات سے ٹیکس مانگنے کا کوئی حق نہیں؟ 30سال پہلے پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنانے کے دعوے کرنیوالے آج بھی وہی دعوے دھرا رہے ہیں۔ غریب آدمی بجلی، روزگار، صاف پانی، تعلیم، صحت اور انصاف کے لئے دہائی دے رہے ہیں مگر وزیر اعظم اپنے اور خاندان کے احتساب سے بچنے کیلئے شہر شہر بھاگ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کا جلسوں کا یہ کھیل ان کی بوکھلاہٹ اور ذہنی شکست کا ثبوت ہے۔
غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے نے غریب کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہوشرباء مہنگائی نے قوم سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ عوامی مسائل کے احساس سے نابلد یہ نااہل، کرپٹ حکمران مخدوش اور بو سیدہ عمارت کی طرح ہیں جس سے ملک و قوم کو شدید ترین خطرہ ہے۔ لہذا اس عمارت کو مسمار کر کے تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ مرمت سے کام چلانے پر بضد ہیں، ان کا یہ مطالبہ قوم کو ملبے تلے دبانے کا مکروہ اقدام ہوگا۔ ملک پر مسلط خاندانی بادشاہت خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ کرپشن کی اس حکومتی عمارت اور نام نہاد جمہوری نظام کو گرانے کیلئے قوم سے ایک فیصلہ کن کردار مطلوب ہے۔ جس سے حقیقی جمہوریت کا قیام اور عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی ممکن ہوسکے۔
عوام چاہتے ہیں کہ قومی دولت کے لٹیروں سے لوٹی گئی پائی پائی وصول کی جائے مگر افسوس! احتساب کے ادارے لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ جب تک عوام حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر ملک بچانے اور قومی خزانہ لوٹنے والوں سے نجات کا عزم کر کے باہر نہیں نکلیں گے، احتساب کا عمل شروع نہیں ہوگا۔ ان حالات میں پاکستان عوامی تحریک واحد جماعت ہے جس نے اس ڈاکو راج کو چیلنج کرتے ہوئے 14 لاشیں اٹھائیں اور آج دو سال گزر جانے کے بعد بھی تنہا انصاف کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ 19کروڑ عوام کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کرنے پر زخمی اور لاشیں دی گئیں، اس کے باوجود ہمارے کارکنوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے اور کسی صورت خون کا بدلہ خون کے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
17 جون 2016ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر قائدانقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے زیر قیادت یوم شہدا منایا جارہا ہے، اس تاریخی اجتماع میں لاکھوں عوام اپنے شہید بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کریں گے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کا خون رنگ لائے گا۔ حکومتی دہشتگرد انصاف کا راستہ اب زیادہ دیر تک نہیں روک سکیں گے۔ قاتل حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ جلد عوامی انقلاب کے ذریعے دہشتگرد اور کرپٹ حکمرانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوگا۔ شہداء ماڈل ٹاؤن کا قصاص لیا جائے گا اور ظلم و جبر کے اس دور کا خاتمہ ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک و قوم کے جسد کے ساتھ چمٹنے والی ان جونکوں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والی ان دیمکوں کا بلا تفریق احتساب کیا جائے۔ پانامہ لیکس کے انکشافات کے تناظر میں حکمران خاندان کافی الفور احتساب ناگزیر ہے۔ حکمران خاندان کا احتساب قومی اداروں اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس لئے کہ قوم قومی دولت لوٹ کر بیرونی بینک بھرنے والوں کا کڑا احتساب چاہتی ہے۔ پارلیمانی اپوزیشن احتساب کی یہ قومی ذمہ داری پورا کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ اس لئے کہ عرصہ دراز سے عوام پر مسلط یہی مخصوص چہرے اور خاندان بھی کرپشن کی غلاظت میں لت پت ہیں۔ لہذا ان سے حکمرانوں کے احتسان کی امید رکھنا بے جا ہے۔ ایسے حالات میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایجنڈاہی ملک و قوم کے عین مفاد میں ہے کہ اس فرسودہ سیاسی و انتخانی نظام کو خیر باد کہے بغیر حقیقی تبدیلی نا ممکن ہے۔ اس کے لئے قوم کوملک میں سچی، صاف ستھری، کرپشن سے پاک حقیقی جمہوریت کے قیام اور ان کرپٹ حکمرانوں سے نجات کیلئے میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم ملک میں رائج کرپٹ نظام کے خاتمے کیلئے پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دے، تاکہ ملک کی تقدیر اور غریب کی حالت بدل سکے۔ اس کے لئے کرپشن مکاؤ کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو کر خوشحالی کی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔
ماخوز از ماہنامہ منہاج القرآن، جون 2016
تبصرہ