ملکی حالات و واقعات، حقائق کیا ہیں۔۔۔؟
پانامہ لیکس کے انکشافات
وکی لیکس کے بعد پانامہ لیکس نے اس وقت پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ پانامہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے درمیان ایک ملک ہے جس کے کیوبا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کیوبا بدنام زمانہ منشیات فروشوں کا اڈا ہے۔پانامہ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ ملک شمالی اور جنوبی امریکہ کے درمیان بحری راستے کو 22 ہزار کلومیٹر سے ساڑھے نو ہزار کلومیٹر تک کم کر دیتا ہے اور یہ فاصلہ اس 77 کلو میٹر نہر کے ذریعہ کم کیا جاتا ہے جو پانامہ کی سرزمین میں کھودی گئی۔ اس بحری راستے کے کھلنے کے بعد پانامہ کی اہمیت اور بھی اجاگر ہوئی۔ 1970ء کی دہائی میں پانامہ میں دو وکیلوں نے موزیک فرانسیکا لا فرم کے نام سے ایک کمپنی بنائی جو بنیادی طور پر ان سرمایہ داروں، منشیات فروشوں اور کرپٹ لوگوں کیلئے تھی جو اپنا کالا دھن سفید کرنا چاہتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی نہیں پوچھا جاتا تھا کہ آپ اس آف شور کمپنی کیلئے سرمایہ کہاں سے لائے ہیں۔ اس طرح اس ملک کے قانون کے مطابق اب ان کا یہ سرمایہ جو انہوں نے کرپشن سے حاصل کیا تھا ان کی جائزآمدن بن گیا۔
پوری دنیا کو اس وقت چند مافیاز کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ مافیاز عوام کو اپنے ماتحت رکھنے اور ہر طرح کے اختیارات، وسائل اور اقتدار کو اپنے پاس رکھنے کے لئے حرام، ناجائز اور قانون و آئین کی پاسداری سے قطعی بے نیاز ہوتے ہوئے اپنی ہی بدمستی میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی سرکشی والی رسی کو کچھ ڈھیل دیتا ہے اور پھر اچانک کھینچ کر انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے۔ پانامہ لیکس کے ذریعے ہونے والے انکشافات ہمارے حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی سرکشی کو ایک لگام دینا ہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ یہ انکشافات ہی ان کی بوریا بستر لپیٹنے کا باعث بن جائیں۔ مگر اس کے لئے عوام کو دیگر ممالک میں ہونے والے احتجاج کی طرز پر اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے باہر نکلنا ہوگا۔
پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے سے ان حکمرانوں کے کرپٹ ہونے اور سرمایہ ملک سے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے میں اب کوئی بھی ابہام باقی نہیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ یہ اب ملزم سے باقاعدہ مجرم کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
پاکستان میں ان طاقتور، متکبر سرمایہ دار مافیاز کے خاتمے کیلئے سب سے مضبوط آواز چیئرمین پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے۔ اسلام آباد دھرنے میں وہ 72 دن تک اعداد و شمار کے ساتھ قوم کو بتاتے رہے کہ ان مافیاز کااصل چہرہ کیا ہے اور یہ کن کن ذرائع سے اپنے مکروہ مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ بعد ازاں حکمرانوں کی منی لانڈرنگ، کرپشن کے مختلف واقعات اور حالیہ پانامہ لیکس جب عوام کے سامنے آئے تو میڈیا سمیت ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری ٹھیک کہتے تھے۔
قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے اور بیداری شعور کے لئے ان حکمرانوں کے گھنائونے چہرے قوم کے سامنے بے نقاب کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام ان حکمرانوں کے ذریعے اپنے حقوق کی مزید پامالی سے محفوظ رہ سکے اور ملک پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ پانامہ لیکس پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد تحریک نے فرمایا کہ
’’آف شور کمپنیاں Investment کرنے کے لئے نہیں بلکہ کرپشن کے پیسہ کو چھپانے کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد کالا دھن کو سفید کرنا ہوتا ہے۔ کرپٹ لوگ چوری اور کرپشن کا پیسہ ان آف شور کمپنیوں میں رکھتے ہیں اور پھر وہاں سے پیسہ نکال کر آف شورکمپنی کے ذریعے مختلف ملکوں میں جائیداد خریدتے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے کی ناکام ترین کوشش پر قائد تحریک نے فرمایا کہ ’’اس وقت اپنے کاروبار اور خاندان کا پس منظر بیان کرنے اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانیاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ قوم کو یہ بتانے کا وقت ہے کہ آپ اتنا پیسہ کہاں سے لائے؟‘‘
وزیراعظم اپنی پوری تقریر میں اپنے کاروبار کے سود و زیاں اور کاروباری اونچ نیچ کی داستان سناتے نظر آئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مالی طور پر مکمل تباہ ہونے کے باوجود ایک سال کے اندر اندر وہ دوبارہ متعدد فیکٹریوں اور ملوں کے مالک بن جاتے ہیں، مگر کس طرح؟ اس سوال کا جواب وزیراعظم سمیت پوری حکومتی مشینری دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’آلہ دین کے چراغ‘‘ کا مالک یہ خاندان اگر ہمارے ملک کا حکمران ہے تو ان کی یہ صلاحیتیں اور قابلیتیں اس ملک کے کام کیوں نہیں آتیں۔۔۔؟ کیوں ہر آئے روز ہمارے قومی اداروں کی نجکاری اور پامالی کا عمل جاری ہے۔۔۔؟ ملک سے غربت و بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کیوں ختم نہ ہوسکیں؟ یہ خاندان جب اپنا کاروبار کرے تو تمام حکومتوں میں سیاسی مخالفت کے باوجود دن دوگنا رات سوگنا ترقی کرتا جائے مگر جب ملک و قوم کی باری آئے تو وہاں ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہوجائیں تو یہ بات ہضم ہونے والی نہیں۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے حکومتی وزراء، وزیراعظم کے ذاتی کاروبار پر صفائیاں دیتے نظر آرہے ہیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ غیر قانونی کمپنیاں نہیں ہیں بلکہ اُس ملک کے قانون کے مطابق ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ آپ کے آقا حکومت تو پاکستان میں کرتے ہیں مگر کاروبار سات سمندر پار کیوں۔۔۔؟ پاکستان میں غریبوں کے ٹیکس سے تنخواہ اور اپنی عیاشی کا سامان پورا کرتے ہیں مگر اپنے کاروبار دیگر ممالک میں کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟ پاکستان میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات کرتے ہیں مگر اپنا ٹیکس بچانے کے لئے آف شور کمپنیوں میں Invest کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟ اسے منافقت نہیں تو اور کیا کہیں گے۔ اگر آف شور کمپنیاں پانامہ میں قانونی ہیں اور آپ اس قانون سے فائدہ اٹھانے وہاں پہنچ گئے تو اس سلسلہ میں دیکھنا یہ ہے کہ آپ نے کہاں کہاں سے کرپشن، خیانت اور ملک و قوم کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہوئے یہ ’’قانونی‘‘ کام کیا۔۔۔ اس ’’قانونی کام‘‘ سے پہلے ملک کے کتنے قانون آپ نے توڑے۔
قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پانامہ لیکس پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان حکمرانوں کی کرپشن کی مزید داستانیں بھی بے نقاب کیں کہ ’’اپنے پہلے دورِ حکومت میں نیوزی لینڈ کی سرکاری سٹیل مل میں شریف فیملی شیئر ہولڈر تھی۔ اس سٹیل مل میں حصہ دار بننے کے لئے پیسے کہاں سے آئے اور وزیراعظم نے وہ پیسے کس ذریعے سے نیوزی لینڈ پہنچائے؟‘‘
ابھی تک شریف فیملی کی طرف سے اس کی کوئی تردید نہیں آئی۔ قائد تحریک نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’’وزیراعظم سے استعفیٰ لیا جائے اور اداروں کی سربراہی میں اس سکینڈل کی تحقیقات کرائی جائے۔ اس حکومت کی موجودگی میں کسی بھی طرح کے کمیشن کی تحقیقات کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ کمیشن سے کلین چٹ لینا موجودہ حکمرانوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور اس کمیشن کی ویسی ہی رپورٹ آئے گی جو سانحہ ماڈل ٹائون کے کمیشن کی تھی۔ جس میں مظلومین اور مضروبین کو مجرم بنا دیا گیا۔‘‘
قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ ’’یہ تو صرف ایک کمپنی کا سکینڈل ہے۔ یورپ میں سینکڑوں ایسی کمپنیاں ہیں جو آف شور کمپنیوں کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اور کتنی کمپنیوں میں ان حکمرانوں نے پاکستانی عوام کے لوٹے گئے پیسے کی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے۔‘‘
یہ وقت ہے کہ عوام کو سوچنا اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے ان حکمرانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے یا اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان کا غلام بنانا ہے۔۔۔؟ پانامہ لیکس کی وجہ سے برطانیہ، آئس لینڈ، مالٹا، میکسیکو میں عوامی احتجاج کی وجہ سے حکمرانوں کو سخت حالات کا سامنا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک نے اس پر سنجیدہ اقدامات کئے۔ مگر ہمارے حکمران اور ان کے رکھوالے وزراء اپنی ساری توانائیاں اپنی کرپشن محفوظ کرنے پر صرف کررہے ہیں۔ آخر عوام کو کب ہوش آئے گا۔۔۔؟ ادارے کب حرکت میں آئیں گے۔۔۔؟ ہم اچھے برے کی پہچان کے قابل کب بنیںگے۔۔۔؟
لیکن شاید ہماری عوام کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہمیں شیر صفت درندہ حکمرانوں کی ضرورت ہے جو گردن سے منہ لگا کر سارا خون پی جائیں اور زخم بھی نظر نہ آئے۔ کیا ہم ایسے ’’شیر‘‘ کے آگے اب اپنی نسلوں کو پیش کریں گے؟
حاکم شہر کی اس بند گلی کے پیچھے
آج ایک شخص کو خون اگلتے دیکھا
تم تو کہتے تھے ہوتے ہیں درندے ظالم
میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا
سانحہ گلشن پارک لاہور
گذشتہ ماہ گلشن اقبال پارک لاہور میں دہشتگردی کے واقعے نے ایک بار پھر پوری قوم کو رنجیدہ و غمزدہ کر دیا۔ اس واقعہ میں 74افراد شہیدجبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ شہید ہونیوالوں میں 29بچے اور 24خواتین بھی شامل تھیں۔
شہریوں کو جان و مال کا تحفظ مہیا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور ریاست اس کام کیلئے پولیس سمیت دیگر سول ایجنسیوں کو بروئے کار لاتی ہے۔ ہمارے ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری پولیس اور سول ایجنسیوں کا زیادہ حصہ ہمارے حکمرانوں اور VIPSکی ڈیوٹی میں مصروف رہتا ہے اور جو عملہ بچ جاتا ہے وہ ناکے لگا کر شہریوں کی جیبیں اس لئے خالی کرتا ہے کہ انہیں اعلیٰ حکام کی جیبیں بھی بھرنی ہوتی ہیں۔ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری با ر بار پنجاب میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے فوج اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کا مطالبہ کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ حکمرانوں کے چہرے بھی بے نقاب کرتے رہے کہ کس طرح پنجاب کے حکمران دہشتگردوں کی آبیاری کرتے ہیںاور پنجاب حکومت کی اعلیٰ شخصیات باقاعدہ کالعدم تنظیموں کی سر پرستی اور کفالت کرتی ہیں مگر شریف برادران نے پنجاب میں آپریشن کے بارے ہمیشہ پہلو تہی سے کام لیا۔ ان حالات میں بالآخر فوج ہی کو قوم کی حفاظت کے لئے اندرون محاذ پر بھی خدمات سرانجام دینا پڑتی ہیں۔ سانحہ گلشن پارک کے فوری بعد آرمی چیف نے GHQمیں اجلاس طلب کر کے فیصلہ کیا کہ پاک فوج اور رینجرز پنجاب میں آپریشن شروع کریں گی۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی طرح حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلیت کی بناء پر کسی حکومتی منظوری یا جازت کے انتظار کے بغیر رات کے ڈیڑھ بجے آپریشن شروع بھی کردیا گیا۔ اس وقت وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت عوامی نمائندے اور جمہوریت کے رکھوالے گہری نیند سو رہے تھے۔
اس آپریشن کا فوج اور رینجرز کے ذریعے کروایا جانا اور حکومت سے بھی باقاعدہ اجازت طلب نہ کرنا گویا فوج کا ان حکمرانوں اور پولیس پر عدم اعتماد ہی کا ایک اظہار ہے۔ اب فوج نے آپریشن تو شروع کر دیا مگر خدشہ یہ ہے کہ ان حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں شاید یہ آپریشن اتنا موثر نہ ہو کیونکہ دہشتگردوں کو پالنے والے، ان کی کفالت کرنے والے اور ان سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے انہیں ہمیشہ کی طرح اب بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ انہیں راہ فرار ضرور مہیا کریں گے۔
قائد تحریک نے بر وقت دہشت گردوں اور انکے سیاسی و مالی معاونین کے چہرے بے نقاب کئے۔ آپ نے نظریاتی دہشتگردی کے محاذ پر ضرب امن و علم کا آغاز کردیا ہے۔ اس لئے کہ دہشتگرد صرف وہ نہیں جو بمبار ہے بلکہ دہشتگرد وہ شخص بھی ہے جو بظاہر دہشتگردی کے اس عمل سے لاتعلق ہے مگر دل میں اس عمل کو اور اس کے کرنے والوں کو برا نہیں جانتا۔ مزید یہ کہ ان کے لئے دل میں نرم خیالات رکھتا ہے اور ہر محاذ پر ان کا دفاع کرتا ہے۔ قائد تحریک نہ صرف دہشتگرد کے ہاتھ سے بندوق اور زبان سے زہر آلود نشتر چھیننا چاہتے ہیں بلکہ دل سے نفرت نکال کر انسانیت کی محبت و احترام بھی اس میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
دہشتگردی کے اصل مجرم صرف وہ لوگ نہیں جو اپنے آپ کو لوگوں کے ہجوم اور بچوں کے درمیان اڑا لیتے ہیں بلکہ دہشتگرد وہ حکمران طبقات بھی ہیں جو عرصہ دراز سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔ جنہوں نے قومی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک اپنے اکائونٹس بھر لئے اور اپنی سات نسلوں کیلئے جائیدادیں خرید لیں مگر بدلے میں اس ملک کو جہالت، غربت، ناانصافی اور بے روزگاری دی۔ نتیجتاً یہ نوجوان اپنے اور اغیار کی سازشوں کا شکار ہوکر اس راہ سے اپنی غربت کو ختم کرنے کے لئے باہر نکلے اور خودکش بمبار بننے لگے۔ گویا دہشتگردی کے ذمہ داریہ حکمران ہیں۔
وہ مقتدر ادارے جو طاقتورہونے کے باوجود کرپٹ مافیاز کے ساتھ ساز باز کئے ہوئے ہیں یا کم از کم انکے جرائم سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں انہیں بھی جواب دینا ہوگا۔ لہذا یہ وقت سوچنے اور فوری فیصلے کا ہے کہ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو سنوارنا ہے ،اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے اور اپنی نسلوں کو معاشی پریشانیوں سے نجات دلانی ہے تو ہمیں ان بنیادی وجوہات کے خلاف ایکشن لینا ہوگا جو دہشتگردی کے اصل اسباب ہیں اور ان کرپٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کرکے ملک پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لئے حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھانا ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2016ء
تبصرہ