کیا ہم آزاد قوم ہیں۔۔۔؟
وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 68سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ’’یوم آزادی‘‘ ایک طرف تاریخ کے لہو رنگ اوراق کی یاد تازہ کرتی ہے، تو دوسری طرف وہ آزادی کے حسین خواب پر قربان ہوئی قیمتی جانوں اور لٹی عصمتوں سے تجدید عہد وفا کا ایک اور موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ ہم اپنے ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حال کا محاسبہ کریں اور مستقبل کے لئے ان راہوں کا انتخاب کریں جو ہماری قوم کو زندہ ضمیر کے ساتھ حقیقی معنوں میں آزاد قوموں کی فہرست میں لا کھڑا کریں۔ ہم آج تک اجتماعی احتساب سے نگاہیں چراتے ہوئے ہر سال چودہ اگست کے دن کو بھر پور جوش وخروش سے مناتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ اس جشن کو مناتے ہوئے گزشتہ ماہ و سال کے آئینے میں ہمیں اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں کا موازنہ کرنا چاہئے تھا، جو کہ زندہ اقوام کا وطیرہ ہوتا ہے۔ جرمنی اور جاپان پر نظر دوڑائیں جو دوسری جنگ عظیم1945ء کی بھیانک تباہی کے بعد دوبارہ نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف ہوگئے تھے اور ہم نے بھی ان کے دو سال بعد 1947ء میں ایک نوزائیدہ آزاد مملکت کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا۔ مگر افسوس ہمارا یہ 68 برس کا عرصہ ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی جانب لے گیا، جبکہ ان اقوام کے حوصلے اور قوت ارادی نے انہیں ایک بار پھر سے دنیا کی عظیم ترقی یافتہ قوموں میں سر فہرست لا کھڑا کیا۔ جہالت اور ضمیر فروشی نے ہمیں اوجِ ثریا سے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دے مارا اور آج ہمیں آزادی کا دن تو یاد رہا مگر حقیقی آزادی کیا ہے؟ ہم بھول گئے۔
آج ہم بحیثیت قوم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ہر طرف سے ہمیں بحرانوں نے گھیر رکھا ہے۔ ایک طرف ہم نظریاتی یکجہتی ،فکری وحدت اور اتحاد و اتفاق سے محروم ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی و انتہاء پسندی سے دوچار ہیں۔ لا قانونیت اور کرپشن کی بھرمار نے ہمارے اصل چہرہ کو ہی بگاڑ دیا ہے۔ طبقاتی تفریق ، استحصالی نظام، ہنر کی نا قدری، تعلیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن، اختیارات کا نا جائز استعمال، اخلاقی اقدار کا فقدان اور ریاستی دہشت گردی جیسی خوفناک آندھیوں سے ہمارا حال بری طرح لرز رہا ہے۔ حقیقی جمہوری روایات کا نہ ہونا، ہچکولے کھاتی معیشت، اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، پینے کے صاف پانی سے محرومی، لوڈ شیڈنگ کا عذاب اور نظام صحت کے گھمبیر مسائل ناقابل برداشت اور ایک عام انسان کے بس سے باہر ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میںجہاں عدالتوں میں انصاف، درسگاہوں میں ڈگریاں، اسمبلیوں میں ضمیر ، اسپتالوں میں جعلی دوائیاں اور مسجدوں میں ایمان تک بکتے ہیں وہاں نام نہاد حکمران بھی ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کا ایک بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔
یہاں تو دوھرے معیار قائم ہیں، دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بھی ہمارے انہی حکمرانوں نے بنایا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 شہریوں کو شہید کرنے والا کمیشن بھی انہوں نے بنایا، ایک کی رپورٹ چند گھنٹوں میں جاری ہو گئی اور عدلیہ سے کلین چٹ حاصل کرلی جبکہ دوسرے کی رپورٹ ایک سال مکمل گزرنے پر بھی جاری نہیں کی جا رہی۔ آخر ان دونوں رپورٹوں میں ایسا کیا ہے کہ ایک کی رپورٹ جاری ہوگئی اور دوسری کو چھپا لیا گیا۔ اس کا جواب حکمرانوں سمیت ہر شخص جانتا ہے کہ اس ہولناک و بدترین ریاستی دہشت گردی کے پیچھے انہی حکمرانوں کی منصوبہ بندی اور احکامات موجود ہیں لہذا وہ خائف ہیں اور اپنے اثرو رسوخ اور طاقت کے بل بوتے پر اس رپورٹ کو آج تک دبائے بیٹھے ہیں۔
ہمارے حکمران عوام کو ان کے آئینی اختیارات دینے سے بھی گریزاں ہیں، اس وجہ سے بلدیاتی انتخابات کو کسی نہ کسی طرح موخر کروانے کی مذموم کاوشیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوام کے حقوق غصب کرکے جمہوریت اور آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کیلئے حالیہ بجٹ میں دیہات میں ترقیاتی کاموں کیلئے خطیر رقم مختص کرتے ہوئے اس رقم کے استعمال کا صوابدیدی استعمال شروع ہو چکا ہے۔ ن لیگ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے کی گرانٹس دی جارہی ہیں جو پری پول رگنگ اور بے ایمانی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے 7 سال سے فارم ٹو مارکیٹ ہزاروں کلو میٹر سڑکوں کے مرمتی فنڈز جاری نہیں ہونے دئیے جس کی وجہ سے یہ سڑکیں کھنڈر بن گئیں۔ جیسے ہی سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دیا، وزیراعلیٰ پنجاب کو ’’پکیاں سڑکاں، سوکھے پینڈے‘‘ کا نعرہ یاد آ گیا۔
ہر سال حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں۔ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اب تک 50 ہزارسے زائد شہری سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں، حکمرانوں نے سارا پیسہ میٹرو بسوں پر لگایا مگر وہ بھی بارشوں میں ڈوبی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے درست کہا کہ ہر طرف کرپشن کا سیلاب ہے، جس کی سزا 19کروڑ عوام بھگت رہے ہیں۔
حکومتی کرپشن کا سیلاب ہر طرف تباہی پھیلارہا ہے۔ یہ حکمران بھی سیلاب ہی کی طرح کا ایک عذاب ہیں جب تک یہ عذاب مسلط رہے گا غریب کاشتکاروں کو سیلاب کی تباہی سے نجات نہیں ملے گی۔ سب سے بڑی کرپشن بند تعمیر کرنے اور سیلاب کی روک تھام کے نام پر ہو رہی ہے۔ مٹی کے ڈھیر اکٹھے کر کے انہیں بند کا نام دے دیا جاتا ہے جو سیلاب کے پہلے ریلے کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ کسی غیر ملکی فرم سے ان بندوں کا تکنیکی معائنہ کروا لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ہر سال حکومتی سرپرستی رکھنے والے بااثر خاندان اپنے اثاثے بچانے کیلئے غریب کاشتکاروں کو ڈبو دیتے ہیں۔ ہر سال جنوبی پنجاب سیلاب میں ڈوبتا ہے اور جنوبی پنجاب کے غریب کسان اربوں، کھربوں روپے کی فصلوں اور مویشیوں کا نقصان برداشت کرتے ہیں اور ہر سال نام نہاد خادم اعلیٰ پنجاب ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں، تصویریں بنواتے ہیں، جھوٹے وعدے کر کے واپس اپنی جنت تخت لاہور آ جاتے ہیں۔
محترم قارئین! کب تک ان حکمرانوں کی نااہلیاں ہمیں بحرانوں سے دوچار رکھیں گی۔۔۔؟ کب تک ہم اپنے آپ کو بے بسی کے ساتھ اجڑتا دیکھتے رہیں گے؟ کب تک ہم ان حکمرانوں کی نااہلی کے سبب جنم لینے والے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے عفریت سے لڑتے رہیں گے؟ کب تک ہم ذہنی، قلبی، معاشی اور معاشرتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے؟ کب تک اس 68سالہ محض جغرافیائی آزادی کے تصور کو لئے خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ ضمیر و خودی اب بھی اگر بیدار نہ ہوئے تو کب ہوں گے؟ بیداری شعور اگر اب بھی نصیب نہ ہوئی تو کب ہوگی؟ ہمارا سویا ہوا ضمیر اب بھی نہ جاگا تو پھر کب جاگے گا ؟ آخر کب تک ہم اپنی ناکامیوں پر آزادی کے جشن کا پردہ ڈال کر ناچتے رہیں گے؟ آخرکب تک؟ ایک نہ ایک دن تو ہمیں بھی وقت کے کٹہرے اور ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو کر اس سوال کا جواب دینا ہی ہو گا کہ۔۔۔ کیا ہم ایک آزاد قوم ہیں؟
تبصرہ