17 جون 2015 : ’’نوائے وقت‘‘ میں سلیم بخاری کی تحریر کا عین الحق بغدادی کی طرف سے جواب
ویسے تو آئے دن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مخالفت میں کچھ نہ کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے مگر آج سلیم بخاری صاحب کی تحریر پڑھ کر جانبداری کا نہ سوچنا منافقت لگا اور جواب نہ دینا ظلم۔ کچھ لوگوں نے ایک خاص قسم کی عینک پہنی ہوتی ہے یا انہیں پہنائی گئی ہوتی ہے، اس عینک کی موجودگی میں انہیں وہی کچھ نظر آتا ہے جو انہیں دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ کسی نے بھوکے سے 2+2 کا جواب پوچھا تو اسے 4 روٹیاں نظر آئیں۔
17 جون کا واقعہ تاریخ پاکستان میں دل ہلا دینے والا واقعہ ہے جس پر کوئی مذہبی، سیاسی یا سماجی جماعت ایسی نہیں جو دکھ کا اظہار نہ کرتی ہو مگر واقعہ کے ایک سال گزر جانے کے باوجود کچھ لوگوں کو واقعہ کے اسباب سمجھ میں نہیں آئے۔
موصوف نے بڑی مہارت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو لندن پلان کیساتھ جوڑ دیا اور ریٹائرڈ جنرل پاشا کا نام دے کر آئی ایس آئی کو بھی اس واقعہ سے جوڑ دیا۔ کاش اس موقع پر اگر آپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے چند دن قبل رانا ثناء اللہ کا بیان سن لیا ہوتا جس میں قادری صاحب کے جن نکالنے کی بات ہوئی اور خواجہ سعد رفیق کا بیان جس میں اس نے قادری صاحب کی آمد پر سبق سکھانے کی بات کی تو آپ کو شاید سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اسباب سمجھنے میں آسانی ہوتی۔
آپ نے لکھا کہ اس واقعہ کے اسباب کی ایک وجہ قادری صاحب کے کینیڈا میں بیٹھ کر نواز، شہباز کے خلاف اشتعال انگیز گفتگو بھی تھی۔ حضرت آپ بھول گئے کہ آپ نے خود اعتراف کر لیا ہے کہ قادری صاحب کے اشتعال انگیز بیانات پر سلطنت شریفیہ نے انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اگر بیانات کے جواب میں لاشیں گرانے کا اصول ہوتا تو شہباز شریف کے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے، پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنے کے بیان کے بعد اس وقت کے صدر کے حکم پر پولیس کا رخ شہباز شریف کے گھر کی طرف ہوتا اور حال ہی میں زرداری صاحب کی براہ راست حکومت اور فوج کو لگائی جانے والی دھمکیوں کے نتیجے میں اس وقت تک بلاول ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ دونوں کا باطن ایک ہے اور ظاہری اختلاف عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہے مگر قادری صاحب کے بیانات پر اس لیے ایکشن لیا کہ ان کے بیانات میں صداقت تھی اور ان کا ظاہر و باطن ایک تھا۔
مجھے نہیں پتہ آپ نے یہ جملہ لکھ کر نواز، شہباز کی تعریف کی ہے یا مذمت کہ وہ اپنے خلاف بیان بازی برداشت نہ کر سکے اور سبق سکھانے کے نتیجے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو گیا۔
آپ نے فرمایا بیئریئر ہٹانے کا حکومتی فیصلہ احمقانہ تھا کیونکہ قادری صاحب کی انقلاب کی نوید کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تھا۔
واہ جناب واہ اگر نوید انقلاب کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تھا تو صرف قادری صاحب کی رہائش گاہ ہی سے کیوں بیئریئر ہٹانے کا حکم نامہ جاری ہوا جو کورٹ کی اجازت اور پولیس کی نگرانی میں لگے تھے وہ بیئریئرز ہٹانے کا فیصلہ کیوں نہ ہوا جو منہاج سیکرٹریٹ کے علاوہ ماڈل ٹاؤن میں موجود تھے اور غیر قانونی تھے میں یہ فیصلہ عوام پر چھوڑتا ہوں جو آپ کی اس سوچ کا فیصلہ خود کریں۔
آپ نے کہا کہ قادری صاحب کی خواہش پر ایک ایسی ایف آئی آر درج ہوئی جس میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت کئی افراد کو نامزد کیا گیا۔ واہ جی واہ قادری صاحب کی خواہش کے قربان جائیں جس خواہش کے پورا کرنے کیلئے اسلام آباد کی طرف مارچ اور 72 دن دھرنا اور پھر 31اگست کو کئی جانوں کا ضیاع، ان تمام امور کے بعد آپ کی سلطنت شریفیہ میں قادری صاحب کی اس معصوم خواہش پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے مگر قابل حیرت بات یہ ہے کہ آپ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا اپنے محسنوں کا نام ایف آئی آر میں درج ہونے پر ہوا۔
حیرت مجھے آپ کے اس جملے پر ہے جس میں بیئریئرز ہٹانے کے فیصلے کو آپ نے معمولی فیصلہ کہا اور آپ خود لکھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بیئریئرز ہٹانے کا فیصلہ ہوا اور پولیس کی بھاری نفری بیئریئرز ہٹانے آئی۔
آپ کی اطلاع کیلئے بیئریئرز ہٹانا TMA کام کام ہوتا ہے اور وہ بھی دن کے وقت نہ کے چوروں کی طرح رات کے دو بجے 12 تھانوں کی 3000 نفری کے ساتھ ۔اتنی بڑی نفری کے ساتھ بیئریئر نہیں ہٹائے جاتے بلکہ قتل کیے جاتے ہیں اور رات کے اس حصے میں اس لیے کہ عوام سوئی ہو گی اور اس ظلم و ستم کو دیکھ نہیں سکے گی۔ٹی وی چینلز پر چل گیا تو کیا ہو گا مگر موصوف کی اطلاع کیلئے کہ قادری صاحب کے کارکن سوئے ہوئے نہیں تھے البتہ ہمیشہ راتوں کو جاگنے والا اور پلوں اور سڑکوں پر رات کو چھاپے مارنے والا وزیراعلیٰ اس دن سو گیا تھا کیوں؟ اس لیے کہ اس نے اس واقعہ کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی آپ نے سچ کہا۔۔۔؟
قربان جاؤں آپ کی سادگی پر اور اس سارے آپریشن پر آپ اپنی تحریر میں فرماتے ہیں کہ بیئریئرز ہٹانے کے اس معمولی آپریشن کیلئے کنٹرول روم بنایا گیا تھا۔اب اس کنٹرول روم میں کون تھا اور وہاں سے کس کو باخبر رکھا جارہا تھا یہ بھی آپ بہتر جانتے ہونگے مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ آپریشن کنٹرول روم ہونے کے باوجود افسران بالا اور وزیراعلیٰ اس پورے واقعے سے لاعلم رہے۔
آپ نے لکھا کہ آپریشن کنٹرول روم سے پولیس اہلکاروں کے اغواء اسلحہ چھیننے اور ان کی وردیاں اتار کر میڈیا کے سامنے پیش کرنے کی اطلاعات تھیں۔ حضرت آپ کیلئے عرض ہے کہ واقع شروع ہوتے ہی میڈیا موقع پر موجود تھا اور ہر چیز لائیو دکھائی جارہی تھی پھر میڈیا پر تو اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی تو پھر کنڑول رول میں ایسا کون شخص بیٹھا تھا جو یہ پرپیگنڈہ کر کے قتل عام کروانا چاہتا تھا یہ بھی آپ ہی بتائیں گے کہ یہ کنٹرول روم کس کے پاس تھا اور اس دن کنٹرول روم میں ٹی وی کیوں نہیں تھا؟
آپ نے کہا کہ آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ پہلے فائرنگ کس نے کی آپ اس کے ذریعہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں گولیاں چلاتے پولیس والوں کو ہر چینل نے دکھایا ہے۔ لوگ PATکے شہید ہوئے پھرپہلی گولی کا معاملہ آپ نے کیوں اٹھا لیا؟ آپ کو معلوم نہیں کہ کنٹرول روم میں بیٹھا جو شخص جھوٹا پراپیگنڈہ کررہا تھا پہلی گولی بھی اس کے کسی حواری نے چلائی۔
سفید کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو آپ نے PAT ورکرقرار دیا اور سادا کپڑوں میں ملبوس پولیس کے شوٹرز جو میڈیا دکھاتا رہا اس کے باجوود آپ کا ان سے نظر چرانا ظاہر کرتا ہے کہ قلم آپ کا ہے مگر سیاہی کسی اور کی، زبان آپ کی ہے مگر الفاظ کسی اور کے، دماغ آپ کا ہے مگر سوچ کسی اور کی جو آپ کی تحریر کو مشکوک کرتا ہے۔
ایک سال مکمل ہونے پر آپ نے قاتل حکمرانوں سے توجہ ہٹانے کیلئے اور علی باقر نجفی کی رپورٹ کا اثر زائل کرنے کیلئے شہداء کی فیملیز کے ذہنوں کو الجھانے کیلئے مجلس و حدت المسلمین کے دہشت گردوں اور راجہ ناصر عباس کی ہدایات کا تاثر دے کر نہ صرف شہیدوں کی روحوں کو تڑپایا بلکہ حکمرانوں کو ذہنی سکون مہیا کر نے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں بھی کچھ سکون حاصل کیا ہو گا۔ وزیراعلیٰ کو آپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر دکھی قرار دیا اور قادری صاحب کیلئے آپ کے الفاظ و القابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے اصل ذمہ دار قادری صاحب ہیں اور وزیراعلیٰ بڑے دکھی ہیں اور وہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہتے تھے مگر عمران خان اور شیخ رشید کی دھمکیوں کی وجہ سے خاموش ہو گئے واہ کیا کہنا آپ کے دکھ اور انصاف کا۔
ایک اہم بات کہ ایک سال میں یہ آپ کی پہلی تحریر ہے جس میں آپ نے مجلس وحدت المسلمین کو بھی پورے پروگرام میں گھسیٹا ہے مجھے یوں لگا جیسے رانا ثناء اللہ نے علی باقر نجفی کی رپورٹ کو شائع نہ کرنے کی ایک وجہ یہ قرار دی کہ اس سے فرقہ بازی کا خطرہ تھا۔ یہاں میں یہ کہوں گا کہ آپ نے بھی ایک خاص مقصد کے تحت مجلس وحدت المسلمین کا ذکر کیا ہے تاکہ ان سے محبت کرنے والوں کی نظریں ایک بار پھر ان کی طرف اٹھیں واقعے کے اصل مجرموں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ دیگر شواہد کے ساتھ مجلس وحدت المسلمین کو اس سانحے میں شامل کرنا آپ اور رانا ثناء اللہ کی دوستی کی علامت ہے۔
PAT کی سینئر قیادت کی طرف سے ہمیشہ انکار کیا جاتا رہا کہ رانا ثناء اللہ نہ مذاکرات میںشامل تھے اور نہ انہیں مذاکرات کیلئے قبول کیا گیا بلکہ ایک بار خواجہ سعد رفیق مذاکرات کیلئے آئے تو انہیں کارکنان کی مزاحمت سے بچانے کیلئے قادری صاحب کو خود کنٹینر سے باہر آنا پڑا تو دوبارہ نہ آنے میں ہی انہوں نے عافیت سمجھی۔ ایسی صورت میں رانا ثناء اللہ کو مذاکرات میں کیسے قبول کیا جاتا مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک سال بعد پہلی بار وہ آپ کے پروگرام میں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مذاکرات میں شامل تھے اور ان کو پتہ ہے ڈیل ہوئی ہے مگر وہ تفصیلات نہیں بتانا چاہتے اور آپ اس مکار شخص کی بات پر یقین کر جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف کسی بھی قسم کی ڈیل کرنے والے اور کہنے والے پر خدا کی لعنت کا کہا گیا اور یہ کہ ڈیل کرنے والے کو ایمان نصیب نہ ہوا اور قیامت کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو، ایسے الفاظ سے بھی آپ کو تسلی نہ ہوئی۔ اب لگتا یہی ہے کہ آپ کو ان الفاظ کے معنی کا اندازہ نہیں البتہ رانا صاحب کی بات آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آتی ہے۔ اس سے مجھے کچھ تسلی ہوئی کہ موصوف کی عقل پر پردہ ہو گا مگر پھر ایک قابل افسوس امر سامنے آیا کہ آپ کی عقل پر ہی نہیں بلکہ آنکھوں پر بھی پردہ ہے، جب آپ نے کہا کہ اگر ڈیل نہیں تو شہداء کی فیملیز کہاں ہیں اور احتجاج کیوں نہیں کرتیں، عین اسی دن جب آپ نے یہ تحریر لکھی اس دن ماڈل ٹاؤن میں ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ ہوا جسمیں تمام شہداء کی فییملیز اور زخمی نہ صرف موجود تھے بلکہ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا اور جس میڈیا سے آپ کا تعلق ہے اسی میڈیا کے مختلف پروگرامز میں احتجاجی گفتگو بھی کی۔ حتیٰ کہ تمام ٹی وی چینلز نے شہداء کی فیملیز کے ساتھ سپیشل پیکیج بھی کیے بلکہ بعض لوگوں نے اس شک کی بنا پر کہ کوئی ڈیل نہ ہو گئی ہو اور شاید کہ فیملیز کے گھر جا کر PAT کے خلاف کوئی بات نکلوا سکیں۔انہوں نے شہداء کی فیملیز کے گھر جا کر پروگرامز کیے آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ آنکھوں پر پڑے نوازشات کے پردے کو ہٹا کر دیکھیں تو آپ کو شہداء کی فیملیز کے احتجاج بھی نظر آئیں گے ان کی آہ و بکا بھی سنائے دے گی ان کی انصاف کیلئے دھائی بھی سنائی دے گی۔
آپ نے فرمایا کہ (طاہرالقادری کی تیسری جلا وطنی تک) عرض ہے آپ جیسے منجھے صحافی کو ایسا لفظ لکھنا چاہیے جس کے مطلب سے واقف بھی ہوں یا تو آپ لفظ جلا وطنی کا مطلب نہیں جانتے یا نواز، شہباز کی دوستی میں آپ کو بیرون ملک ہر سفر جلاوطنی ہی نظر آنے لگا ہے جبکہ نواز شریف صاحب کی بھی تین جلا وطنیاں ہیں ایک جب مشرف سے ڈیل کے نتیجے میں جان کی امان پا کر جیل کی سلاخوں پر جلاوطنی کو ترجیح دی اور دوسری مرتبہ جب پاکستان آنے کی کوشش کی اور لاہور ایئرپورٹ پر پہنچ کر جب بڑے بوٹ اور چھڑی دیکھی تو ایک لمحے کیلئے پھر اٹک جیل کا وہ کمرہ یاد آیا جہاں دریائے اٹک کے پانی کا شور انہیں سونے نہیں دیتا تھا تو اسی جہاز میں دوسری جلاوطنی قبول کی اور نون لیگی 100 کارکن ایئرپورٹ پر تماشا دیکھتے رہے مگر آپ کے الفاظ میں جلاوطن قادری صاحب کو جب پاکستان آنا تھا تو آپ کے چاہنے والوں نے ان کے آنے سے پہلے 14 لاشیں گرا دیں۔ ہزاروں گرفتاریاں ہو گئیں مگر لاکھوں کارکنان پھر بھی اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچ گئے بالآخر حکومت نے بوکھلاہٹ کے عالم میں جہاز کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا اور جلاوطن قادری صاحب کو آپ کی حکومت کی پوری طاقت سرزمین پاکستان پر اترنے سے نہ روک سکتی۔ حالانکہ قادری صاحب جلا وطن نہیں اپنی بیماری کی وجہ سے بیرون ملک گئے تھے۔
انتہائی احترام کے ساتھ آپ نے اپنی تحریریں واقع کے صحیح اسباب کے بجائے غلط حقائق کے ذریعہ اصل واقعہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے اور الفاظ کے گورکھ دھندے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کی کوشش کی ہے مگر یاد رکھیں کہ شہداء ماڈل ٹاؤن کا نام پاکستان میں عوامی جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور تاریخ انہیں خراج تحسین پیش کرے گی مگر حقائق کو بدلنے والوں کا نام تک نہ ہو گا داستانوں میں دعا ہے اللہ ہدایت دے۔
تبصرہ