شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
آمنہ خالد
قوموں کی زندگی کا انحصار بہادری، جواں مردی اور بے خوفی پر منحصر ہوا کرتا ہے۔ زمانہ قدیم سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ طاقتور قوم اس قوم کو اپنا محکوم بنا لیتی ہے جس میں بہادری، جواں مردی اور خودداری کا فقدان ہوتا ہے۔
اور وہی قومیں دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھتی اور زندہ رہتی ہیں جو اپنا دفاع مضبوط رکھتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے بھی 6 ستمبر 1965 کی شب غیر اعلانیہ جنگ کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے خود جارحیت سے ہمیشہ گریز کیا مگر 6 ستمبر 1965ء وطن عزیز پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن، زریں اور تابناک دن ہے۔ جب ازلی دشمن نے جارحیت کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں یہ سوچ کر کہ پاکستانی قوم سو رہی ہے پاک سرزمین پر ناپاک قدم رکھنے کی جسارت کی اور قوم کی غیرت و حمیت کو للکارا۔ پاکستانی بلاشبہ سو رہے تھے لیکن غافل نہ تھے۔
مسلمانوں کے ہاتھوں بار بار رسوا ہونے کے باوجود ہندو قوم کو ہوش نہیں آیا کہ وہ جس قوم سے ٹکرا رہے ہیں وہ کٹ تو سکتی ہیں لیکن جھک نہیں سکتی۔
پاکستان کے جری دلیر، بہادر سپوتوں نے شجاعت کی انمٹ داستان رقم کی اور دشمن کے غرور اور زعم کو خاک میں ملا دیا اور پوری قوم پاکستانی افواج کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں، جذبوں سے جیتی جاتی ہے اور اس وقت یہ جذبہ پاکستانی قوم میں بیدار تھا۔
بھارت نے 6 ستمبر 1965ء کو رات کے وقت پاکستان پر حملہ کیا تو اس کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ شیر سویا بھی ہو تو شیر ہی ہوتا ہے۔
اس وقت بھی سرحدوں کے محافظ جاگ رہے تھے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب اللہ کے شیر جہاد کے لیے نکلے تو نے دریاؤں کے رخ پلٹ دیے، پہاڑوں کا سینہ چیر کر رکھ دیا اور کفر کی ہر دیوار ان کے ضربِ مومن سے مٹی کا ڈھیر بنتی چلی گئی۔
کیونکہ مسلمان مجاہد کی ایک ہی آرزو ہوتی ہے وہ ہے شہادت کی آرزو۔ اللہ کی راہ میں جان لوٹا دینے کی تمنا۔ ستمبر کی جنگ میں چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب پاک فوج کے شیر دل جوان اپنے جسموں سے بم باندھ کر ہونٹوں پر نعرہ تکبیر اور دلوں میں شہادت کا جذبہ لیے دشمن کے ٹینکوں کو ریزہ ریزہ کرتے چلے گئے۔
اپنا سب کچھ دفاعِ وطن کے لئے قربان کر دیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو رزقِ خاک بنا دیا۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازوؤں پر نگاہ کر
جو غرور تھا وہ غرور ہے
سرگودھا ائیر بیس کمانڈر بیان کرتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں ائیر بیس کی حفاظت کے لیے اضافی فوج آئی ہوئی تھی۔ ان کے لیے چارپائیوں اور بستروں کی ضرورت پڑی۔ سرگودھا کی ایک مسجد میں اعلان کروایا گیا کہ فوجیوں کے لیے چارپائیوں اور بستروں کی ضرورت ہے۔ میرے ذہن میں تھا کہ کچھ بستر اور چارپائیاں مل جائیں تو گزارا کر لیں گے لیکن میں نے دیکھا کہ پی اے ایف ایک ہی گھنٹے میں انسانوں اور گاڑیوں سے بھر چکا تھا۔ ہر ایک کے پاس بالکل نئے بستر اور چارپائیاں تھیں۔ ہم نے ضرورت کے مطابق بستر اور چارپائیاں لے لیں اور باقی لوگوں کو واپس لے جانے کے لیے کہا تو وہ غصے سے چارپائیاں اور بستر پر پھینک کر بولے کہ ہم سے نہیں لینی تو ہم بھی یہ واپس نہیں لے کر جائیں گے۔
ان کا یہ جذبہ اور خلوص دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے دل میں کہا کہ اس قوم کے لوگوں میں ایسا جذبہ ہے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
طاقت کے نشے میں چور دشمن جو پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا وہ ہمیشہ کے لئے ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس چلا گیا کیونکہ وہ یہ نہیں جانتا تھا یہ وہ سرزمین ہے جو شہیدوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ اور پاک فوج کے سپوت اس بات کی عملی تصویر ہیں ہیں کہ
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے دن بھی آتے ہیں جو قربانی کا تقاضا کرتے ہیں اور پاکستانی تاریخ میں 6 ستمبر 1965ء کا دن ایک ایسا ہی دن تھا جب پاکستان کے بہادر سپوت جرأت و بہادری اور استقلال کا استعارہ بنے نظر آئے۔ کبھی میجر عزیز بھٹی بن کر شام کی چائے پینے کا دعوی کرنے والوں کے خوابوں کو نیست و نابود کیا تو کبھی ابھی ایم ایم عالم بن کر ایک منٹ میں دشمن کے پانچ طیاروں کے پرخچے اڑا دیئے۔
قربانی کی لازوال مثالیں قائم کرتے ہوئے کچھ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تو کچھ غازی بن کر سرخرو ہوئے۔
یہ وہ بہادر سپوت تھے جو نمایاں خدمات سر انجام دے کر دادِ شجاعت دیتے ہوئے اسلام اور پاکستان پر نثار ہوگئے۔ بہادری اور دلیری سے افواج پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہماری افواج کا ہر جوان بہادر اور دلیر ہے۔ یہ ان مجاہدین کی داستانیں ہیں جنہوں نے شہادت کا جام شوقِ بہشت اور خوشنودی الٰہی میں نوش کیا اور ایسی انمٹ داستان رقم کر گئے کہ جس پر پاکستانی قوم کو بجا طور پر فخر ہے۔
اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جہاد اولین ہے۔ اس جہاد میں ہی باقی تمام اوصافِ جہاد پنہاں ہیں ہماری پاک فوج سرحدوں پر دشمن سے ملک کی حفاظت ہی نہیں کرتی بلکہ وہ ہماری جان مال اور آبرو کی بھی حفاظت کرتی ہے چنانچہ یہ وہی جہاد ہے جس کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شہداء کو مردہ ہرگز مت کہو وہ تو زندہ ہیں اور اللہ تعالی ان کو روزی عنایت فرماتا ہے۔
6ستمبر 1965ء کی کی جنگ پاک دھرتی کے ان بہادر سپوتوں کی داستان ہے کہ جو اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اسے میلی نگاہ سے دیکھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اس کی عملی تصویر ہیں کہ
ہم جنون گردش کے رخ کو موڑ دیتے ہیں
ہم وہ ہیں جو ظلم کے پنجوں کو توڑ دیتے ہیں
نہ دیکھنا میرے اس وطن کو کبھی میلی نگاہ سے
ورنہ زمانہ گواہ ہے ہم ایسی آنکھیں اکثر پھوڑ دیتے ہیں
لیکن افسوس کہ وہ جذبہ جو 1965 کی جنگ میں پاکستانی قوم میں موجود تھا آج پاکستانی قوم اس جذبہ جرأت و شجاعت سے عاری نظر آتی ہے۔ اور اپنی نسلوں کو اپنی اقدار کا دفاع کرنا سکھانے میں ناکام رہی۔
ہم جن کو حکم اذاں پر پر بت شکن بننا تھا وہ ضمیر فروش بن گئے۔ ہم اقبال کے شاہین، ملک کے معمار تھے جن کو ستاروں پر کمند ڈالنا تھی وہ سستی و کاہلی کی تصویر بن گئے۔
جن کے نعروں سے قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز جاتے تھے، جن کی بے رحم شمشیروں سے دشمن کے دل دہل جاتے تھے آج وہی شمشیریں زنگ آلود ہیں کہ
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
لیکن اگر آج بھی پاکستانی قوم اپنی میراث کو جان لے تو ترقی یافتہ قوموں کی صفِ اول میں آنے سے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
کیونکہ ان پر سایۂ شمشیرِ حیدر ہے۔ یہ تو وہ قوم ہے جس کے بہادر سپوتوں نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے کبھی میجر عزیز بھٹی بن کر تو کبھی مقبول حسین بن کر کہ جس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے جس کے ناخن چیر دیے جاتے ہیں اور پاکستان مردہ باد کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنی زبان کے بہتے لہو سے دیوار زندان پر لکھتا ہے پاکستان زندہ باد
آج پھر سے اسی جذبے کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان آج بھی دشمن کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ اسے پاکستان کا وجود گوارا نہیں اب وہ سرحدوں پر حملہ کرنے کی بجائے ملک کے اندر ہی مسلمان بھائیوں کو لڑانے کی سازشیں کر رہا ہے۔
آج عہد کریں کہ ہم دشمن کے ناپاک منصوبے خاک میں ملا دیں گے اور پاکستان کا دفاع ہر قیمت پر کریں گے یہی 6 ستمبر کا پیغام ہے:
اے ارض وطن ہم تیری عظمت کے ہیں قائل
اونچا تیرا دنیا میں علم کرکے رہیں گے
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء
تبصرہ