ڈاکٹر طاہرالقادری کا دہشت گردی کے سدباب کیلئے 14 نکاتی لائحہ عمل کا اعلان
سربراہ عوامی تحریک نے 14 نکات پر مشتمل دہشتگردی کے خلاف اپنا پلان پیش کر دیا
فوج کے بجٹ میں اضافہ، مدرسوں کیلئے ایک نصاب، بیرونی فنڈنگ پر پابندی لگائی جائے: ڈاکٹر طاہرالقادری
پارلیمنٹ دہشتگردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے، ڈرون حملوں، دہشتگردی اور متاثرین آپریشن کی بحالی کیلئے ادارہ قائم کیا جائے
دہشتگردوں کے حق میں بیان دینے کی سزاعمر قید مقرر کی جائے، فوجی عدالتیں قائم کی جائیں جو 7دن کے اندر فیصلے دیں
نفرت اور انتہا پسندی کے لٹریچر کو تلف اور اشاعت پر پابندی لگائی جائے، نصاب کیلئے علماء بورڈ تشکیل دیا جائے
’’وار آن ٹیرر‘‘کا اعلان کیا جائے، پیس سنٹر قائم کیے جائیں، 21 دسمبر کو ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہونگے : پریس کانفرنس
ہیوسٹن/ لاہور (20 دسمبر 2014) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشتگردی کے خاتمہ کے حوالے سے 14 نکاتی پلان کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد اور ان کے سرپرست پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک ہیں، دہشتگرد گروپس اور ان کے حمائتیوں کے مکمل خاتمہ کیلئے
- دہشت گردی کیخلاف جنگ کو ہماری اپنی جنگ قرار دیا جائے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک قرارداد کے ذریعے باقاعدہ طور پر National war against terrorism کا اعلان کیا جائے۔
- حکومت فوری طور پر گذشتہ 12 سال میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث افراد کے نام، شناخت، ان کا پس منظر، علاقائی تعلق، اور دیگر تفصیلات منظرعام پر لائیں۔ تاکہ قوم نقابوں کے پیچھے چھپے اپنے دشمنون کو پہچان سکے۔ یہ کیسی انسداد دہشت گردی ہے کہ جہاں دہشت گردوں کے چہرے تک چھپا دیے جاتے ہیں۔
- دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوری طور پر ابہام سے پاک قانون سازی کی جائے۔ اور دہشت گردوں کی حمایت میں بیان دینے، ان کو ٹھہرانے، ان کو سہولت فراہم کرنے کو جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزا عمر قید سے کم نہ ہو۔
- دہشت گردی کی جڑیں فرقہ واریت، انتہاپسندی، تکفیریت میں ہیں۔ کفر کے فتووں کے اجرا پر قانونا پابندی عائد کی جائے اور اس پر کڑی سزا رکھی جائے۔
- دہشت گردی کی عدالتوں کے دہشت گردوں سے دہشت زدہ ججز کو اسی جرات اور بے باکی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لانی چاہئیے۔ جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ وہ ہمارے خلاف کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی موجودہ عدالتیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہورہی ہیں ان کی بجائے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات، خصوصی فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں۔ ایک ہفتہ میں سزا اور ایک ہفتہ اپیل کے لئے رکھا جائے۔ پندرہ دنوں میں دہشت گردوں کو سزائیں دی جائیں اور ان پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔
- مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات کو یقینی بنایا جائے نصاب یکساں ہونا چاہئے تاکہ مدارس پر دہشت گردی کی نرسریاں ہونے کے تاثر کو زائل کیا جا سکے، معتدل علماء پر مشتمل بورڈ بنایا جائے جو نصاب سازی کا کام کرے۔ مدارس کے لئے قومی نصاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے نصاب کے پڑھانے پر پابندی عائد کی جائے۔
- دینی مدارس، جماعتوں، تنظیموں اور شخصیات کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ کو فورا بند کیا جائے۔
- پیس ایجوکیشن سنٹر قائم کئے جائیں اور ان کے ذریعہ آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ دہشت گرد سادہ لوح لوگوں کو بلیک میل نہ کر سکیں۔
- نفرت، فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے فروغ کا سبب بننے والے لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے۔
- دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کام کرنے والی خصوصی عدالتیں، ادارے، نیم عسکری فورسز اور ایجنسیاں براہ راست فوج کے ماتحت ہونی چاہئیں۔
- دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فوج کو سہولیات دی جائیں۔ اور اس کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
- قبائلی علاقوں، خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں ہونے والے یتیم اور بے سہارا بچوں اور نوجوانوں کےلئے حکومت فوری طور پر خصوصی ادارے قائم کرے جہاں ان کی کفالت، تعلیم، تربیت، اور خصوصی وظائف دئیے جائیں۔ تاکہ حصول تعلیم کے بعد برسر روزگار ہوں اور امن پسند شہری بنیں ورنہ وہ عسکریت پسندوں کے ہتھے چڑھ کر خود کش بم بار، فرقہ پرست اداروں میں جا کر انتہا پسند بن جائیں گے۔
- غربت، معاشی نا ہمواری، بے روزگاری، اور ظلم و استحصال ایسے عناصر ہیں جو دہشت گردی، انتہا پسندی کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان بالخصوص شمالی علاقہ جات، قبائلی علاقہ جات اور جنوبی پنجاب کی معاشی ترقی کے لئے موثر اور فوری اقدامات کیے جائیں۔
- کالعدم تنظیموں کے نام پر پابندی لگائی جاتی ہے کام پر نہیں۔ انتہا پسندانہ نظریات و افکار رکھنے والی تنظیموں اور جماعتوں پر مکمل پابندی لگائی جائے اور ان کو نام بدل کر کام کرنے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔ اس سلسلہ میں الگ سے خصوصی قانون سازی کی جائے۔ کسی کالعدم تنظیم کے عہدیدار کو کسی اور نام سے تنظیم، جماعت قائم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونا چاہئیے۔
انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا دہشتگردی کی 55 عدالتوں میں 5 سال سے 2025 وہ کیسز زیر التواء ہیں جن کے فیصلے 7 دن کے اندر ہونا قانونی تقاضا تھا، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ دہشتگردی کے کیسز التواء کا شکار ہیں، دیر آید درست آید چیف جسٹس آف پاکستان نے دہشتگردی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سینئر ججز کا ہنگامی اجلاس بلایا، انہوں نے کہا کہ تاحال سانحہ پشاور کے بعد صرف آرمی چیف دردمندی کے ساتھ بھاگ دوڑ کرتے اور ٹھوس فیصلے کرتے نظرآرہے ہیں، سانحہ پشاور کے دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد ابھی تک سیاسی لیڈر شپ کی طرف سے وہ فیصلے اور اقدامات نظر نہیں آرہے جن کی قوم توقع کررہی ہے، پوری قوم ہل کر رہ گئی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟ دھرنے کے دنوں میں طویل ترین اجلاس منعقد ہو سکتا ہے تو اب کیوں نہیں؟ یہ اجلاس تو 16 دسمبر کی شام کو ہی لائحہ عمل طے کرنے کیلئے بیٹھ جانا چاہیے تھا، انہوں نے کہا رسماً ہی سہی اس ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دہشتگردی کی مذمت کی جاتی تو دنیا کو اس بار ہمارے سنجیدہ ہونے کا کچھ نہ کچھ ضرور تاثر ملتا آج بھی اگر ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو سانحہ پشاور اور سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے اور عوام میں اشتعال اور نفرت بڑھتی رہی گی جس کا فائدہ دہشتگرد اٹھاتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 10 سال میں 55 ہزار اموات ہوئیں مگر پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں، انہوں نے کہا کہ یہ موقع سیاست کرنے کا نہیں ہے مگر سچ بولنا اور حقائق پر بات کرنا سیاست نہیں، انہوں نے کہا کہ جب 18 اکتوبر 2007 کے دن بینظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر حملہ ہو اور 139 لوگ شہید ہوئے تب آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟ 21 اگست 2008 کے دن واہ فیکٹری میں 2 دھماکوں میں 64لوگ شہید ہوئے، جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، ہماری حساس فوجی تنصیاب پر حملے ہوئے، واہگہ بارڈر پر حال ہی میں حملہ ہوا، سیاسی لیڈر شپ کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟یکم جنوری 2010 کو کوئٹہ کے ایک دھماکے میں 101 شہید ہو گئے، اسی سال 12مارچ کے دن لاہور کے دو دھماکوں میں 57 بے گناہ شہید ہوئے سیاسی لیڈر شپ کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟ 10 جنوری 2013 ء کے دن کوئٹہ شیعہ کمیونٹی کے علاقہ میں 2 خودکش دھماکوں میں 92 افراد شہید ہوئے ذمہ داروں کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں؟ پھر 16 فروری 2013 کے دن ہزارہ ٹاؤن مارکیٹ میں دھماکہ ہوا 89 افراد شہید ہوئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، سب کان کھول کر سن لیں دہشتگردوں کے ان دھماکوں میں کوئی طبقہ، کوئی مسلک، کوئی سرکاری، غیر سرکاری تنظیم، جماعت ایسی نہیں جس کے لوگ دہشتگردی کا نشانہ نہ بنیں ہوں، اس لیے اب اس سوچ سے باہر نکل آیا جائے کہ یہ جنگ ہماری نہیں غیروں کی جنگ ہے، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ کے خلاف لڑنا صرف فوج کی تنہا ذمہ داری نہیں ہے، اس جنگ کو جیتنے کیلئے پاکستان کے ہر شہری کو، ہر ادارے کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا، دنیا کے بہت سارے ملکوں نے حال ہی میں دہشتگردوں کو شکست دی ہے اور یہ جنگ جیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اتحاد اور یکجہتی کی اس فضا کو اگر حکومت کی طرف سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو قوم ان کے ساتھ بھی دہشتگردوں والا سلوک کرے گی، یہ ہماری جنگ ہے اور یہ ہی وقت ہے تمام فیصلے کرنے کا اگر اب دیر ہوئی تو پھر بہت دیر ہو جائے گی، انہوں نے کہا کہ دہشتگرد آئین، قانون، اخلاقیات، انسانیت کو روندتے ہوئے آتے ہیں، خون کی ہولی کھیل کر چلے جاتے ہیں اور جو پکڑے جاتے ہیں ہم قانون، انسانی حقوق، عدالتی نظام، قانون شہادت کے گھیرے میں آ جاتے ہیں، وکلاء اور سول سوسائٹی سے گزارش ہے کہ وہ دہشتگردی کے مسئلے پر قوم کو قانون موشگافیوں میں مت الجھائیں دہشتگردوں کو سزائیں دینے کیلئے جہاں قانون رکاوٹ ہے فوراً آرڈیننس جاری کر کے رکاوٹیں دور کی جائیں اور دہشتگردوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جو واضح اور دو ٹوک موقف پاکستان عوامی تحریک کا رہا ہے کسی اور کا نہیں رہا، ہمارے کارکنوں نے قومی مفادات کیلئے قربانیاں دیں آئندہ کیلئے بھی تیار ہیں، 21 دسمبر کو پاکستان عوامی تحریک ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہے، پوری قوم سے اپیل ہے کہ وہ ان ریلیوں میں کثیر تعداد میں شریک ہو کر دہشتگردوں اور پوری دنیا کو پیغام دیں کہ ہم ڈرے نہیں ہمارے حوصلے پہلے سے زیادہ مضبوط اور بلند ہیں، پاکستان عوامی تحریک دہشتگردی کیخلاف نظریاتی، فکری اور عملی سطح پر عوامی جدوجہد جاری رکھے گی، ملک بھر میں سیمینارز، کانفرنسز کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف آگہی مہم چلائی جائے گی اور پوری قوم کو دہشتگردی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کیا جائیگا۔
تبصرہ