سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کیلئے قائم ہونے والی جے آئی ٹیز کا قانونی پس منظر
5 دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے روبرو نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ ہوا
جے آئی ٹی نے تفتیش کے بعد اے ٹی سی میں چالان پیش کرنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ نے سٹے آرڈر جاری کر دیا
عوامی لائرز ونگ کے سینئر نائب صدر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیگل ترجمان نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ کی ”روزنامہ تحریک“ سے خصوصی گفتگو
لاہور (24 دسمبر 2020ء) عوامی لائرز ونگ کے سینئر نائب صدر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے لیگل ترجمان نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے روزنامہ تحریک سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے مختلف قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجز بنچ کے روبرو مورخہ 5 دسمبر 2018کو سماعت کے دوران سانحہ ماڈل ٹاون کیس کی ازسرنوتفتیش کے لئے نئی JIT بنانے کا فیصلہ ہوا اور مورخہ 3 جنوری 2019 کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں JIT کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ نئی JIT نے مورخہ 14 جنوری 2019 تا 20 مارچ 2019 تک ملزمان اور مدعی پارٹی سے تفتیش کی حتیٰ کہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبارشریف، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا سمیت دیگر تمام ملزمان کے بھی بیان قلمبند کئے گئے، پہلی بارJIT کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاون کیس سے متعلق متاثرین کی طرف سے تمام زبانی و دستاویزی شہادتوں کے ثبوت پیش کئے گئے۔ JIT نے اپنی تفتیش کے آخری مرحلہ میں ملزمان کا چالان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرنا تھا تو مورخہ 22 مارچ 2019 کو لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک ملزم کی درخواست پر JIT کو کام کرنے سے روک دیا، اس حکم امتناعی کے خلاف سپریم کورٹ میں CPLA دائر کی گئی اور مورخہ 13 فروری 2020 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خاں کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے لاہور ہائی کور ٹ کو ڈائریکشن دی کہ بنچ بنا کر 3 ماہ میں ترجیحاً کیس کا فیصلہ کیا جائے۔ مورخہ 7 دسمبر 2020 کو سانحہ ماڈل ٹاؤن JIT کے نوٹیفکیشن معطلی کیس کی چیف جسٹس کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس جسٹس محمد قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس پر objection raise کیا کہ آپ اس کیس میں کیسے پیش ہوسکتے ہیں؟ اس اعتراض کی وجہ سے کیس پر سماعت نہ ہو سکی، عدالت نے کہا کہ مورخہ 14 اپریل 2019 کو وزیر اعلی پنجاب نے پیشی کے دوران کہا تھا کہ ہم وکیل کو تبدیل کر رہے ہیں اور پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے نیا وکیل پیش ہوگا، ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلی پنجاب نے اس وقت اس لیے کہا تھا اس وقت صورتحال یہ تھی کہ میں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اب میری بطور ایڈووکیٹ جنرل دوبارہ تقرری ہوئی ہے اس لیے میں ہی اس کیس میں پیش ہوں گا۔ جس پر چیف جسٹس، جسٹس محمد قاسم خاں نے کہا کہ اب گورنمنٹ تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کرے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن JIT کیس میں ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس پیش ہوں گے یا گورنمنٹ کی طرف سے کوئی اور کونسل پیش ہوں گے۔
سانحہ ماڈل ٹاون پاکستان کی تاریخ کا منفرد کیس ہے جس میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف، سابق وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف، سابق وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ، پولیس کے اعلیٰ افسران اور بیوروکریٹ ملوث ہیں۔ پہلی والی JIT جانبدار تھی جنہوں نے حقائق کو منظرعام پر لانے کی بجائے اصل حقائق کو چھپایا تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جاسکے۔ سانحہ ماڈل ٹاون JIT کی بحالی سانحہ ماڈل ٹاون کے انصاف کیلئے اشد ضروری ہے کیونکہ اصل ملزمان نوازشریف، شہبازشریف، رانا ثناء اللہ ودیگر ملزمان جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو استغاثہ کیس میں ناکافی شہادت کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے طلب نہیں کیا تھا کیونکہ استغاثہ کی دائرگی کے وقت جو شہادتیں دستیاب تھیں وہ استغاثہ میں دے دی گئی تھیں۔
نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی تفتیش کے لئے بننے والی نئی JIT میں وہ تمام شہادتیں اور ثبوت فراہم کئے گئے ہیں جو ہمیں نواز، شہباز حکومت کے جانے کے بعد میسر ہو سکتے تھے اور اصل ملزموں تک پہنچنے کے لئے JIT کو ایسی تمام شہادتیں، ثبوت اور شواہد مل گئے ہیں کہ باآسانی اس سانحہ کے منصوبہ سازوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور JIT نے خود بھی ان مختلف پہلووں پر تفتیش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے۔ اس کے پیچھے کیا سازش کار فرما تھی۔ اس وقوعہ کے پیچھے کون کون سازشی عناصر موجود ہیں اور یہ سازش کہاں سے چلی اور کس طرح اس سازش پر عملدآمد ہوا۔
تبصرہ