برداشت اور رواداری پرامن معاشرے کی بنیاد ہے: خرم نواز گنڈاپور
دلیل اور مکالمے کو فروغ دینا ہو گا تاکہ ایک بہترین معاشرہ کی تشکیل ہوسکے: سیکرٹری جنرل PAT
پرامن معاشرے میں لوگ ایک دوسرے خدمت اور مدد پر یقین رکھتے ہیں: فکری نشست سے خطاب
لاہور (17 نومبر 2019ء) سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ برداشت اور رواداری پرامن معاشرے کی بنیاد ہے، جس معاشرے سے برداشت اور رواداری اٹھ جائے وہ انسانی معاشرہ کم اور جنگلی معاشرے کا نقشہ زیادہ پیش کرتا ہے، پرامن معاشرے میں لوگ ایک دوسرے خدمت اور مدد پر یقین رکھتے ہیں، برداشت اور رواداری جیسے خوبصورت رویوں کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں، ہمیں رواداری اوربرداشت جیسے رویوں کے فروغ و ترویج کے لیے کام کرنا ہو گا، اسی سے معاشرے میں بہتری اور سکون آسکتا ہے، دلیل اور مکالمے کو فروغ دینا ہو گا تاکہ ایک بہترین معاشرہ کی تشکیل ہوسکے، میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن اور چین قائم ہو تا ہے، عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے خوفناک رجحان کی وجہ سے معاشرے میں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آرہے ہیں جن کا ذکر کر کے بھی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے برداشت اور رواداری کے عالمی دن کے موقع پر ماڈل ٹاؤن میں منعقدہ فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر منہاج القرآن یوتھ لیگ کے مرکزی صدر مظہر محمود علوی، عرفان یوسف، علامہ میر آصف اکبر، علامہ عثمان سیالوی، حافظ غلام فرید، چودھری افضل گجر، عارف چودھری و دیگر بھی موجود تھے۔
خرم نوازگنڈاپور نے کہا کہ خرابی ایک روز میں پیدا نہیں ہوتی اسی طرح خرابی کو دور بھی ایک روز میں نہیں کیا جا سکتا، تحمل، رواداری اور عدم برداشت کی وجوہات کو جانے بغیر ان کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ نفرت، تعصب کو ختم کرنا ہو گا، انہوں نے کہا کہ علمائے کرام محراب ومنبر سے محبت، یگانگت، برداشت اور رواداری کے فروغ پر مبنی بیانیے کو ترجیح دیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہالت ہو گی وہاں عدم برداشت بڑھے گی، بچوں کے لیے جدید سائنسی بنیادوں پر علم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بالغ افراد کی تربیت کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ دینی، علمی، ثقافتی و تفریحی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کام کرنا ہو گا اس سے عام آدمی کی سوچ میں وسعت پیدا ہو گی جس کا اثر معاشرے پر پڑے گا۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ملکر انفرادی و اجتماعی طور پر خوف کے ماحول کو خوشیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔
تبصرہ