پولیس ریفارمز کیلئے عوامی تحریک کی تجاویز اور وزیراعلیٰ پنجاب کے نام کھلا خط
انگریز دور کا مادر پدر آزاد تھانیدار لاقانونیت اورعوامی عدم
تحفظ کی ایک بڑی وجہ ہے
استحصالی نظام کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث کسی افسر کو سزا نہیں ملی
کانسٹیبل کی اہلیت گریجوایٹ، محرر لاء گریجوایٹ اور پریکٹسنگ لائر ہونا چاہیے
سنگین جرائم میں ملوث افسران و اہلکاروں کے خاندان پر فورس کی نوکری بین ہونی چاہیے
پولیس کو عوام دوست فورس بنانے سے آدھی دہشت گردی ختم ہو جائے گی
ہر دور میں پولیس کلچر تبدیل کرنے کی بات ہوئی مگر پولیس کے سیاسی استعمال کا کلچر
بڑھا
خط صوبائی صدور بشارت جسپال، فیاض وڑائچ، قاضی شفیق کی طرف سے لکھا گیا
لاہور (25 جون 2019ء) پاکستان عوامی تحریک پنجاب کے صدر بشارت جسپال، جنوبی پنجاب کے صدر فیاض وڑائچ اور شمالی پنجاب کے صدر قاضی شفیق نے بجٹ کے حوالے سے پولیس ریفارمز اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لیے متعدد تجاویز پر مشتمل وزیراعلیٰ پنجاب کے نا م کھلا خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کلچر میں تبدیلی اور ریفارمز کے لیے 10 ماہ کا عرصہ کافی تھا مگر تبدیلی کے اثرات نظر نہیں آئے، تھانہ کلچر بدلا اور نہ ہی پولیس کی کالی بھیڑیں عزت داروں کی پگڑیاں اچھالنے سے باز آئیں۔
استحصالی اور غاصبانہ نظام کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام میں ملوث کسی ملزم کو سزا نہ مل سکی، ایف آئی آر کے اندراج اور کاپی کے حصول کیلئے آج بھی رشوت اور سفارش چلتی ہے، تھانے غریب شہریوں کی تذلیل کے مراکز بنے ہوئے ہیں، رشوت نہ دینے والے معمولی جرائم میں ملوث غریب ملزموں پر بہیمانہ تشدد آج بھی جاری ہے، جوا، قحبہ خانوں، منشیات، شراب فروشی اور قبضہ مافیا کو بھی پولیس کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، جاہل اور گنوار کانسٹیبل جرائم کی نرسریاں اور اعلیٰ افسروں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ٹاؤٹ ہیں، لہٰذا پولیس میں بھرتیوں کے نظام پر نظر ثانی کی جائے، کانسٹیبل کی اہلیت کم از کم گریجوایٹ اور اس کی تنخواہ گریڈ 16 کے افسر کے برابر ہونی چاہیے اور اسے دین، آئین، انسانی حقوق، پراسیکیوشن اور عدالتی نظام کے بارے میں سپیشل کورسز کروائے جانے چاہئیں، ایس ایچ او کی کوالیفکیشن لازمی طور پر لاء گریجوایٹ ہونی چاہیے، پولیس کا ادارہ بھی فوج اور عدلیہ کی طرز پر خودمختار ہونا چاہیے، اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے الگ فورس ہونی چاہیے۔
عدالتی امور نمٹانے کیلئے الگ ڈیسک ہونا چاہیے اور شہریوں کی شکایات سننے، ان کے ازالہ اور تفتیش کا ایک مربوط نظام ہونا چاہیے، تھانوں میں ون مین شو کا کلچر ختم ہونا چاہیے، افسران کی خواہشات کے مطابق مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ نہ بننے والے اہلکاروں کو محکمانہ تحفظ حاصل ہونا چاہیے، ایف آئی آر کے اندراج اور اخراج کا سارا نظام آن لائن ہونا چاہیے، تھانہ کی سطح پر جسٹس کمیٹی ہونی چاہیے جسے منتخب نمائندے ہیڈ کریں، انگریز دور کا مادر پدر آزاد تھانیدارلاقانونیت، عدم تحفظ اور انتشار کی ایک بڑی وجہ ہے، تھانے کے نظام میں مداخلت کرنے والے سیاستدانوں کے نام مشتہر ہونے چاہئیں، سنگین جرائم میں ملوث اہلکار یا افسروں کے خاندانوں پر پولیس کی نوکری بین کر دینی چاہیے، اہلکاروں اور افسروں کیخلاف شکایات کے فیصلے 15دن کے اندر ہونے چاہئیں۔
ہر تھانہ کی آبادی کی شرح کے حساب سے پولیس نفری ہونی چاہیے، محرر سطح کا افسر پریکٹسنگ لائر ہونا چاہیے، تھانوں کی عمارات بھوت بنگلہ کی بجائے جدید فن تعمیر کا شاہکار ہونی چاہئیں اور تھانوں سے ملحقہ رہائشی ایریا میں افسران اور اہلکاروں کی رہائشگاہیں ہونی چاہئیں تاکہ وہ تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کر سکیں، پولیس کو ہر قسم کے سیاسی اثر و رسوخ سے پاک ہونا چاہیے، اگر پولیس کو ایک عوام دوست اور اینٹی کرائم فورس بنانے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو آدھی دہشتگردی بھی ختم ہو جائے گی، پولیس اور قانون پسند شہریوں کے درمیان ایک احترام پر مبنی رشتہ قائم کرنے سے جرم اور مجرم کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
رہنماؤں نے کہا کہ ہر دور میں تھانہ کلچر اور پولیس ریفارمز کی بات کی گئی مگر عملاً پیشرفت نہ ہو سکی اور ہر حکومت مخالفین کو ٹھکانے لگانے کیلئے بالآخر پولیس کا سیاسی استعمال شروع کر دیتی ہے اور یہیں سے جرم اور لاقانونیت جنم لیتی ہے۔ جہاں پولیس کی کڑی گرفت کی ضرورت ہے وہاں انہیں عزت و احترام دینے کی بھی ضرورت ہے، گزشتہ 10سال میں پولیس افسروں نے جو لوٹ مار کی اور انسانی حقوق کا قتل عام کیا اس کی وجہ سے پولیس کے ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، پولیس افسران کے اثاثوں کی چھان بین ہونی چاہیے کہ جب وہ سروس میں آئے تو ان کے پاس کیا اثاثے تھے اور آج ان کے بیوی بچوں کے پاس کیا اثاثے ہیں، اس پر بھی نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے کو متحرک ہونا چاہیے، سزا اور جزا کے بغیر پولیس کا ادارہ عوام کے جان و مال کا حقیقی معنوں میں محافظ نہیں بن سکتا۔
تبصرہ