سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس:انسداد دہشتگردی عدالت میں استغاثہ پر کارروئی شروع
مستغیث جواد حامد نے تیسری بار بیان قلمبند کروانا شروع کر دیا، مزید کارروائی 17 مئی کو ہوگی
انصاف کے لیے پانچ سال قبل جہاں کھڑے تھے وہیں آج کھڑے ہیں: وکلاء عوامی تحریک
لاہور (11مئی 2019ء) سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے قائم جے آئی ٹی کے مستقبل کا فیصلہ نہ ہونے پر انسداد دہشتگردی عدالت لاہور کے جج اقبال چدھڑ نے مستغیث جواد حامد کو اپنا بیان قلمبند کروانے کا حکم دیا ہے، اس حکم کی روشنی میں مستغیث جواد حامد نے تیسری بار انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں اپنا بیان قلمبند کروانا شروع کر دیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کیس 5 سال قبل جہاں سے شروع ہوا تھا آج بھی وہیں پر کھڑا ہے۔ جواد حامد نے انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے جج کے روبرو اپنا ابتدائی بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ پولیس 16 اور 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن ایم بلاک میں جن بیریئرز کو تجاوزات قرار دے کر ہٹانے آئی تھی وہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ماڈل ٹاؤن پولیس نے خود لگوائے تھے اور جس دن بیریئر ہٹانے کا آپریشن جاری تھا اس دن ان بیریئر کی حفاظت بھی ماڈل ٹاؤن پولیس کے اہلکار کررہے تھے جو آپریشن شروع ہونے پر ڈیوٹی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ جواد حامد نے اپنا ابتدائی بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مزید کہا کہ شریف برادران ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان آئیں یا کوئی سیاسی تحریک چلائیں، انہیں پاکستان آنے سے روکنے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور لاشیں گرائی گئیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد کے اعلان کے بعد وزراء جن میں رانا ثناءاللہ، خواجہ سعد رفیق بطور خاص شامل تھے انہوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور جن نکالنے کی بات کی۔ ان کی یہ دھمکیاں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خونی آپریشن کو منصوبہ بندی کا شاخسانہ ثابت کرتی ہیں۔ جواد حامد اپنا مزید بیان 17 مئی کو قلمبند کروائیں گے۔
دریں اثناء انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر عوامی تحریک کے وکلاء انوار اختر ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ اور مستغیث جواد حامد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حصول انصاف کیلئے قانونی جدوجہد کا جو سفر 5سال قبل شروع ہوا تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے، سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کا حکم دیا تھا اور اس حکم کی روشنی میں پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اور جے آئی ٹی نے اپنا 90 فیصد سے زائد کام بھی مکمل کر لیا تھا تاہم تفتیش کے تکمیل کے مرحلہ پر لاہورہائیکورٹ کے فل بنچ نے نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ نئی تفتیش تاحکم ثانی تعطل کا شکار ہے۔ وکلاء نے مزید کہا کہ ایک طرف نئی تفتیش معطل ہے، دوسری طرف پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری عوامی تحریک کے کارکنوں پر ڈالتے ہوئے 42 کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر نمبر 510 درج کی تھی، کارکن ساڑھے 4 سال سے اس جھوٹی ایف آئی آر کے تحت پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کارکن پولیس کے جھوٹے الزام اور چالان کے تحت اب تک 340 پیشیاں بھگت چکے ہیں، نہ تو انصاف ملا اور نہ ہی پیشیوں سے کارکنوں کو نجات مل رہی ہے۔ جواد حامد نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کے ورثاء کو تو انصاف نہیں ملا لیکن اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے 107 کارکنوں کو سزا ضرور مل گئی جو اس وقت صوبہ کی مختلف جیلوں میں بند ہیں اور ناکردہ جرم کی سزابھگت رہے ہیں اور جنہوں نے قتل عام کیا وہ موج میلے کررہے ہیں۔
تبصرہ